لاہور: (آئی این این) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہباز گل پر بدترین تشدد کیا جا رہا ہے اور میرے خلاف بیان دیئے جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ایک اور لانگ مارچ ہو سکتا ہے۔ عام انتخابات جتنے تاخیر سے ہونگے اتنا میری پارٹی کو فائدہ ہو گا۔ کرپٹ اور الیکٹ ایبل کی مجھے ضرورت نہیں۔ اگر الیکشن ہوئے تو کلین سویپ کریں گے۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ جمہوری لوگ بیرونی طاقتوں کو فون نہیں کرتے ہمیں بچا لیا جائے، جیسے آصف زرداری نے اپنے دور میں کہا تھا مجھے پاک فوج سے بچا لیا جائے، یا نواز شریف کو دیکھ لیں جو کٹھمنڈو میں نریندرا مودی سے ملاقات کر رہا تھا، ڈان لیکس بھی واضح مثال ہے، دونوں لیڈرز کی دولت باہر پڑی ہوئی ہے، جیسے یہ مسائل کا سامنا کرتے ہیں جو عالمی طاقتوں کو دیکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں عوام میری طاقت ہے۔ 14 سے 15 سال بعد عوام نے میرا ساتھ دیا، میں عوام کی طاقت سے آیا تھا اسی لیے عوام میں دوبارہ جا رہا ہوں۔
اپنی نا اہلی سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ اور الیکشن کمیشن کے کیسز فضول کیسز ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ الیکشن کمیشن تمام پارٹیوں کے ساتھ ہمارا فیصلہ سنائے، چیف الیکشن کمشنر ایک بزدل آدمی ہے، میرے اور شہباز شریف کے درمیان ڈیڈ لاک آ گیا تھا جس کے بعد نیوٹرلز کے کہنے پر میں نے اس کا نام فائنل کیا۔ چیف الیکشن کمشنر جب سے آئے ہیں، انہوں نے ہماری مخالفت کی ہے، ہمارے خلاف فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ آٹھ فیصلے ہمارے خلاف آئے تو عدالت گئے تو وہاں سے ریلیف ملا، سکندر سلطان راجہ بہت بزدل آدمی ہے اس پر پیچھے بہت دباؤ ہے۔
پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ جلسے کر کے ہم نے اپنی پارٹی کو اٹھایا تھا، لانگ مارچ کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں، اس دوران صوبائی اور وفاقی حکومت نے بہت تشدد کیا اور لوگوں کو بہت خوفزدہ کیا۔ میرے لوگوں نے بہت تشدد برداشت کیا، اگر میں لانگ مارچ ختم نہ کرتا تو اس رات بہت خون خرابہ ہونا تھا۔ میں انتشار نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے میں پیچھے ہٹ گیا۔ 17 جولائی کو جب ہم نے دھاندلی کے باوجود الیکشن جیتا تو پلان تبدیل ہو گئے۔ اب مجھے سائیڈ کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، توشہ خانہ اور الیکشن کمیشن ایک حربہ بنایا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ہم پر دباؤ ڈال رہے ہیں، ڈاکٹر شہباز گل کا کیس دیکھ لیں، مجھے اس کیس کی تفصیل نہیں پتہ تھا، پی ٹی آئی رہنما پر جیل میں بدترین تشدد کیا گیا۔ نواز شریف، فضل الرحمان، مریم نواز، ایاز صادق، خواجہ آصف اس بھی زیادہ بیان دے چکے ہیں، لیکن ان کے خلاف کچھ نہیں کیا، ہاں ڈاکٹر شہباز گل نے جو بیان دیا وہ غلط تھا، میں فوج کو مضبوط ادارہ دیکھنا چاہتا ہوں، پی ٹی آئی رہنما پر بدترین تشدد بھی ٹھیک نہیں، اسے میرے خلاف بیان دیئے جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ شہباز گل سے پوچھا جا رہا ہے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کتنے بار عمران خان سے ملے ہیں۔ اور پوچھا جا رہا ہے عمران خان کھانا کیا کہتا ہے؟
عمران خان کا کہنا تھا کہ شہبازشریف فیملی کے خلاف تحقیقاتی کرنے والے 5 لوگ ہلاک ہو گئے ہیں، کسی نے کوئی تحقیق کی، میں نے عوام کو بتا دیا ہے کہ میں نے ایک ویڈیو ریکارڈ کروا کر رکھی ہے تاکہ عوام کو پتہ چلے میرے خلاف کون ہیں، 3 سے 4 لوگ میرے خلاف ہیں۔ ڈاکٹر شہباز گل سے پوچھا جا رہا ہے کھانے میں کیا کھاتے ہیں عمران خان، میں پوچھنا چاہتا ہوں یہ کیوں پوچھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئین ہمیں احتجاج کرنے کا حق دیتا ہے، ہمیں روکا جا رہا ہے، امریکی سفارتخانے نے ان کو سہولیات فراہم کیں، ہمارے لوٹے امریکی سفارتخانے ملنے گئے، ریکارڈ مہنگائی ہو گئی ہے، چار ماہ میں بدترین مہنگائی بڑھ گئی ہے،عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ مہنگائی حکومت کا ایشو نہیں، بلکہ یہ صرف اپنے کیسز ختم کروانے آئے تھے۔ گیارہ سو ارب روپے کے کیسز انہوں نے ختم کروائے ہیں۔ سازش کا کسی کو شق نہیں ہونا چاہیے، میرے خلاف پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ ایرانی مصدق کے خلاف بھی کمپین چلی تھی، پاکستان میں بدترین مہنگائی پر میڈیا کیوں نہیں بول رہا۔ ایرانی ماڈل کو ہماری حکومت پر بھی عمل کیا گیا، مقامی میر جعفر اور میر صادق نے امریکا کا ساتھ دیا۔ ڈونلڈ لو کی سائفر کو ڈی کلائسیفائیڈ دیکھا سکے، نیشنل سکیورٹی کونسل میں رکھا، پارلیمنٹ میں رکھا، چیف جسٹس آف پاکستان کو ارسال کیا، سازش کو آگے بڑھایا جائے، اسی کے تحت میری کردار کشی کی جا رہی ہے۔ مجھے نا اہل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، ڈاکٹر شہباز گل پر تشدد ایک مثال ہے کہ ان کو ڈرایا جائے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ سازش کی جا رہی ہے، وزیراعظم ہاؤس میں ایک سیل بنا ہوا ہے، پاک فوج اور تحریک انصاف کو لڑانے کی سازش کی جا رہی ہے، لیفٹیننٹ جنرل سرفراز پاکستان کے سب سے بہترین افسر تھے، ان کی شہادت پر ٹویٹر پر لوگوں نے کچھ لکھا ایک میڈیا ہاؤس نے اسے اٹھایا، ہم جانتے نہیں تھے کہ وہ کون لوگ ہیں۔ مجھے جو بھی کچھ کہنا ہو گا میں خود کہوں گا، مجھے ڈاکٹر شہباز گل کو کوئی بات کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پراپیگنڈا کمپین چلائی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر جو کلپ چل رہے ہیں وہ بھی سازش ہے۔
پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ آخری کھیل یہ ہے عوام کو متنفر کرو، تحریک انصاف کو پاک فوج کو لڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ لوگ حکومت میں ہیں، خود کو پاک سمجھ رہے ہیں، ہمیں آپس میں لڑائی کی سازش کی جا رہی ہے، ہماری پارٹی سب سے بڑی پارٹی ہے، جو سب کو متحد رکھ سکتی ہے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی حکومت میں فریڈم آف سپیچ یقین رکھتا ہوں، تنقید بہت ضروری ہے، بادشاہت اور جمہوریت میں بہت فرق ہے، بادشاہت میں میرٹ نہیں ہے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں بادشاہت ہے جس کی وجہ یہ پارٹیاں سکڑ جا رہی ہیں اور صوبوں تک محدود ہوکر رہی گئی ہیں، معاشرے میں جب تنقید اور احتساب نکال دیتے ہیں تو معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔ احتساب ادارے اور میڈیا کرتا ہے، میرے خلاف تین سال بہت تنقید کی گئی، یہ سب تنقید بیرونی فنڈنگ سے کی جا رہی تھی، تنقید کے باعث ہم خود کو بہتر کرتے ہیں، ایک حد تک اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنی چاہیے۔ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے۔ پولیس والوں نے 25 مئی کو بہت تشد دکیا ، انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا، خواتین، بچوں، لڑکیوں، بزرگوں سمیت دیگر پر تشدد کیا گیا، لوگوں کے گھروں میں غیر قانونی طور پر گھس گئے، دنیا کی سب سے بہترین ایجنسی پاکستان کے پاس ہے، میں پوچھنا چاہتا ہوں ان لوگوں کو کیسے اجازت دیدی گئی کہ یہ سازش ہو رہی ہے، نوازشریف کے خلاف جے آئی ٹی میں کوئی نہیں آتا تھا، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے لوگ آئے تو تحقیقات شفاف ہوئیں، میں پوچھنا چاہتا ہوں سب کچھ اداروں کو پتہ تھا میرے خلاف سازش کیوں نہیں روکا گیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ عالمی سازش میں مقامی لوگ شامل تھے، اس لیے میں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک سائفر بھیجا، اور مطالبہ کیا اس پر تحقیقات کریں، اس وقت معیشت بہت تیزی سے ترقی کر رہی تھی، آئی ٹی ترقی کر رہی تھی، زراعت ترقی کر رہی تھی، اس لیے میں چاہتا تھا ایک تحقیقات ہوں، سپیکر قومی اسمبلی کو بھی سائفر بھیجا، تحقیقات نہیں ہوئیں ۔
صدر مملکت سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہے تو کبھی معاشی استحکام نہیں آ سکتا، سیاسی استحکام نہ ہو ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری رُک جاتی ہے، شہباز شریف کو خود نہیں پتہ کہ وہ کتنی دیر اپنے عہدے پر براجمان ہیں۔ نومبر سے پہلے الیکشن ہو سکتے ہیں یا نہیں، اس پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ 13 اگست کو شہباز شریف نے بھی قوم سے خطاب کیا، قوم اس امپورٹڈ حکومت کو نہیں مانتی۔ معیشت بچانے کے لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سعودی عرب، امریکا سمیت دیگر ممالک کو فون کر رہے ہیں۔ میرے دور میں ہم چین، سعودی عرب ، یو اے ای گئے تو انہوں نے ہمیں پیسے دیئے، اس کے بعد ہم نے اپنا ملک سنبھالا، میرے دور میں 6 فیصد سے ملک ترقی کر رہا تھا، یہ لوگ ہمیں چلنے دیتے، کوئی بارودی سرنگیں نہیں بچھا رہے تھے، ترقی ہو رہی تھی۔ شہباز شریف کو عالمی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں مل رہی۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میرے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے حالات خراب نہیں ہوئے، میری طاقت یہ تھی کہ ہم ایک پیج پر تھے۔ نواز شریف، زرداری کے فوج کے ساتھ کلیش اس وقت ہوتے تھے جب یہ لوگ پیسے لوٹ کر باہر جاتے تھے، مجھے آئی ایس آئی بتاتی تھی یہاں پر لوگ باہر لے کر جا رہے ہیں۔ نواز شریف اور زرداری فوج کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے، میرا آرمی چیف کے ساتھ کچھ مسئلے تھے، ایک عثمان بزدار اور دوسرا لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر اختلاف تھا، میں چاہتا تھا وہ دسمبر تک ڈی جی آئی ایس آئی رہیں، کیونکہ افغانستان میں بہت مسائل چل رہے تھے، میں کہتا تھا عثمان بزدار کو ہٹائیں گے پنجاب میں مسائل بہت ہوں گے، اسی لیے اس معاملے پر کچھ اختلافات ہوئے۔ اس میں پارٹی میں گروپ بن گئے، ایک شخص کی وجہ سے لوگ الگ ہوئے اور گروپ بنا کر ہمیں تنگ کیا گیا۔ لیکن اب وہ سیاست سے آؤٹ ہو گئے ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ میری آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے کوئی بات نہیں ہوتی، وزیراعظم تھا تو اس وقت بات ہوتی تھی، میں سمجھتا ہوں اپوزیشن کا کوئی کام نہیں آرمی چیف سے بات کرے۔ آرمی چیف کی ایکسٹینشن میرا ایشو نہیں، یہ فیصلہ حکومت کرے گی۔
الیکشن بائیکاٹ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے پاس بہت آپشن ہیں، اس پر ابھی غور نہیں کیا، ایک اور لانگ مارچ ہو سکتا ہے۔ پنجاب میں الیکشن دوبارہ جیت جاتے ہیں تو دوبارہ بلدیاتی الیکشن کروائینگے، پارٹی میں بھی دوبارہ الیکشن ہونگے، جس سے زبردست لوگ آگے آئینگے۔ عام انتخابات جتنے تاخیر سے ہونگے اتنا میری پارٹی کو فائدہ ہو گا۔ آئی ایم ایف ہمیں ایک ارب ڈالر دے بھی دے تو معاملات ٹھیک نہیں ہونگے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو واپس لانا سازش ہے، پلان کر کے اُسے واپس لایا جائے گا، پہلے مجھے نا اہل کروائیں گے، پھر کہیں گے دونوں کو لڑنے کی اجازت دے دیتے ہیں، تکنیکی طور پر ایک جگہ پر ہمیں کھڑا کر جائینگے، میں کسی طور پر ڈیل پر نہیں مانوں گا۔ نواز شریف کا واپس آنا بہت اچھا ہے، یہ کیسز ختم کر کے لا رہے ہیں، یہ سازش ہے۔ توشہ خانہ میں مجھے جو بھی گفٹ ملتے تھے میں توشہ خانہ میں ملنے والے تحفے میں سرکاری جگہ پر بھیج دیتا ہوں، میں وہاں پر قانون کے مطابق کچھ چیزیں لے سکتا تھا۔
دوبارہ وزیراعظم بننے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں، میری عوام میرے ساتھ ہے، لوگوں کا ہجوم جب ایک قوم بن جاتا ہے تو اس سے بڑا ایک کرم اللہ پاک نہیں کر سکتا۔ میرا عوام سے سوال ہے جب میں ملک کا وزیراعظم ہوں تو میرا سب کچھ باہر کے ملک کیوں ہے، میں جب اقتدار میں آؤں گا تو سب سے پہلے میرا سب کچھ پاکستان میں ہو گا، ہم اوورسیز سے پاکستانیوں کو کہہ رہے ہیں ترسیلات زر بھیجیں اور سرمایہ کاری کریں، تو یہاں پر لوگ اپنا پیسے باہر رکھ رہے ہیں، یہ بہت بڑی منافقت ہے۔ اسی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آ رہی۔ یہ ڈالر باہر بھیج رہے ہیں۔ ٹیکس چوری کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ ملک اگر نیچے گیا تو ہم باہر چلے جائیں گے۔
عدالت سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم والے جوڈیشیری کودھکمیاں دیتے رہتے ہیں، مجھ دکھ ہوا میں کتنا بڑا خطرہ تھا رات کوبارہ بجے عدالتیں کھلیں، ججز کوتقسیم کیا جارہا ہے، جسٹس قیوم کوکال کرکے فیصلہ کرانا شریف خاندان کی ایک تاریخ ہے، زرداری، نوازشریف کو خوف ہے ان کا پیسہ بچ جائے، مجھے توجوڈشیری سے کوئی خوف نہیں۔ پی ٹی آئی حکومت میں صحافیوں کےخلاف اگرکچھ ہوا تومیری حکومت ملوث نہیں تھی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ امریکا سے ہمیں اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں، وہ ایک سپر پاور ہے، ایکسپورٹ کی سب سے زیادہ امریکا میں ہوتی ہے، ہماری سب سے زیادہ طاقتور کمیونٹی وہ امریکا میں رہتی ہے۔ ہمیں ان کے ساتھ تعلقات ختم نہیں کرنے چاہئیں، دوستی اور غلامی میں بہت فرق ہے، ہمارے حکمران ہمیشہ چمچہ گیری کرتے رہے ہیں، اسی لیے وہ ہم سے ڈومور کرواتے ہیں۔ ہمارے حکمران ان کے پاؤں میں گر جاتے ہیں، امریکا کا پاکستان کے ساتھ بہت زیادہ انٹرسٹ ہے، ہمارا بھی امریکا کیساتھ انٹرسٹ ہے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگلی مرتبہ وزیراعظم بنا تو بہت فرق آئے گا۔ میری حکومت کے پہلے دو سال بہت مشکل تھے، تیسرے سال میں بہت ترقی ہوئی، اب ہم نے سبق سیکھے ہیں جو ہم نے کچھ سیکھا ہے اس کو آگے لیکر چلیں گے، اصلاحات کریں گے۔ پاکستان کو کسی بلاک کا حصہ نہیں بننا چاہیے، ایک گروپ کا حصہ بنتے ہیں تو دوسرا ناراض ہو جاتا ہے۔ میں اپنے ملک کی آزاد پالیسی چاہتا ہوں، کسی کی غلامی قبول نہیں کروں گا۔ اپنے شہریوں کو قربان نہیں کرنا چاہیے، ہر اس ملک سے دوستی کرنی چاہیے جس سے عوام کو فائدہ ہوا، چین سے زیادہ تعلقات ہیں اور مزید بہتر کرنے چاہئیں، امریکا سے بھی تعلقات اچھے رکھنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی ڈرون کو اجازت دیئے جانے کی خبریں آ رہی ہیں، کابل میں پاکستان کیخلاف احتجاج ہوا، ہمیں اپنے ماضی سے سیکھنا چاہیے۔ ہم نے بہت مسائل اٹھائے، 50 لاکھ مہاجرین آئے، بہت مسائل ہوئے، لوگوں کو نوکریاں نہیں ملیں، یورپ میں تین لاکھ مہاجرین آئے تو وہاں پر بہت مسائل نکلے۔ ملک کا مستقبل بہت زبردست ہے، لوگوں میں بہت شعور آ گیا ہے، میں نے اپنی زندگی میں لوگوں کو اس طرح نکلتے نہیں دیکھا۔ دو گھنٹے کی تقریر لاہور میں کی اور لوگ ہل نہیں رہے تھے، اسی لیے میں نے تقریر اپنی لمبی کی۔ سوشل میڈیا کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر فوری الیکشن ہوں تو ملک بھر میں پی ٹی آئی کلین سویپ کرے گی۔ اس بار سب ٹکٹ میں خود دوں گا، کوئی غلطی نہیں کروں گا۔ ضمنی الیکشن میں ایک غلطی ہوئی آئندہ یہ غلطی نہیں ہو گی اور کسی کرپٹ بندے کو ٹکٹ نہیں دوں گا۔ میں نے فیملی ٹکٹ نہیں دینا، چاہے کوئی بھی میرے ساتھ نہ آئے۔ کرپٹ اور الیکٹ ایبل مجھے ضرورت نہیں، میں نوجوانوں کو ٹکٹ دوں گا چاہے میں ہار جاؤں۔ اتحادیوں نے مجھے بہت بلیک کیا۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر مجھے بہت افسوس ہوا تھا، امریکا سے کوئی لڑائی نہیں تھی، روس میں اپنے ملک کے لیے گیا تھا۔