کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے گینگ ریپ کیس استغاثہ کی جانب سے جھوٹا قرار دیے جانے کے بعد 2 ملزمان کو بری کردیا۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق گڈاپ پولیس نے مارچ 2012 میں سپر ہائی وے کے قریب گبول آباد میں ایک گھریلو خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی میں ملوث ہونے کے الزام میں 2 دکانداروں کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کیا تھا۔
سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں کیس کی سماعت کرنے والے اے ٹی سی (بارہ) کے جج نے تفتیشی افسر کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری کے بعد ضابطہ فوجداری کی دفعہ 173 کے تحت مطلوبہ تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کے بعد اپنا فیصلہ سنایا۔
تفتیشی افسر انسپکٹر محمد علی سہتو نے ریاستی پراسیکیوٹر طاہر حسین منگی کے ذریعے حتمی تحقیقاتی رپورٹ جمع کروائی۔
انہوں نے کیس کو ’سی‘ کلاس میں نمٹانے کی سفارش کی، جس کا مطلب کیس کو ناقابل سماعت ہونے کی وجہ سے نمٹانا ہے، انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ سفارش قبول کی جائے اور ملزمان کو موجودہ کیس سے بری کر دیا جائے۔
وکیل دفاع ذاکر حسین خاصخیلی نے بتایا کہ ملزمان، شکایت کنندہ اور ان کے شوہر کے نمونے میچنگ کے لیے 2 بار سندھ فرانزک ڈی این اے اور جامعہ کراچی کی سیرولوجی لیبارٹری اور پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری کو بھیجے گئے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں لیبارٹریوں کی رپورٹس کے مطابق اسپرم سیمپلز، حراست میں لیے گئے مشتبہ افراد کے بجائے شکایت کنندہ کے شوہر کے ساتھ میچ ہوئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایک میڈیکو لیگل افسر کی طرف سے جاری کردہ حتمی میڈیکل رپورٹ کے مطابق زیادتی کے کوئی نشانات بھی موجود نہیں تھے۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ تفتیشی رپورٹ کو ’بی‘ کلاس میں قبول کیا جائے۔
واقعے کی مبینہ متاثرہ کی جانب سے وکیل عائشہ منیب اور سید ندیم الحق نے پاور آف اٹارنی دائر کی تھی۔
جج کی جانب سے فیصلے میں کہا گیا کہ فریقین کو سننے کے بعد ڈی این اے تجزیے کے لیے سیمپلز دو بار سندھ فرانزک لیبارٹری اور ڈی این اے سیرولوجی لیبارٹری کو 14 جون 2021 کو شکایت کنندہ کے شوہر کے خون کے نمونے کے ساتھ بھیجے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 9 جولائی 2021 کی ضمنی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق شکایت کنندہ اور اس کے شوہر کے خون کے نمونے اور ویجائنل سویب میں مماثلت پائی گئی تھی۔
جج نے مزید کہا کہ تفتیشی افسر نے متاثرہ خاتون کے کپڑوں سمیت وہی نمونے پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری لاہور بھجوائے تھے، تاہم لیبارٹری کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق سپرمز اور ویجائنل سویب کے نمونوں میں ہزاروں بار میچ کیے جانے کے بعد بھی مماثلت پائی گئی۔
جج کی آبزرویشن کے مطابق حتمی رپورٹ تیار کرنے والی ایم ایل او ڈاکٹر سمعیہ سحر نے بتایا کہ جائزے کے دوران بدسلوکی کی وجہ سے ایک بھی خراش نہیں ملی۔
لہٰذا مندرجہ بالا قانونی پوزیشن کے پیش نظر عدالت نے ’بی‘ کلاس کے تحت تحقیقاتی رپورٹ کی منظوری دی جس کا مطلب ہے کہ شکایت کنندہ کی طرف سے جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس کے خلاف بعد میں کارروائی کی جانی چاہیے۔
جج نے آئی او کو ہدایت کی کہ وہ شکایت کنندہ کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لیے متعلقہ عدالت سے رجوع کرے۔
جج نے دونوں ملزمان کو کیس سے بری کردیا اور کسی اور کیس میں ان کی تحویل میں ہونے کی ضرورت نہ ہونے پر رہا کرنے کا حکم دیا۔
استغاثہ کے مطابق شکایت کنندہ نے بتایا کہ وہ گزشتہ چار، پانچ سال سے گبول آباد میں اپنے شوہر کے ساتھ رہ رہی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ 23 مارچ 2012 کو علاقے کے 2 دکاندار صبح کے وقت اس کے گھر میں گھس آئے جب اس کا شوہر کام پر گیا ہوا تھا اور اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ شرم اور خوف سے خاموش رہی کیونکہ ملزمان نے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔
شکایت کنندہ نے بتایا کہ اگلے دن دونوں افراد ایک بار پھر 2 دیگر ساتھیوں کے ساتھ ان کے گھر میں گھس آئے اور ان سب نے انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور دھمکیاں دے کر گھر سے نکل گئے، جس کے بعد انہوں نے اپنے شوہر کو مطلع کیا جو پولیس لے کر آیا اور 2 افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔
متاثرہ خاتون کی شکایت پر گڈاپ سٹی تھانے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 376 (ریپ کی سزا) اور 34 (مشترکہ ارادے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔