کراچی: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بغاوت کے مقدمے میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور احمد پشتین اور ان کی پارٹی کے 4 رہنماؤں کو اشتہاری قرار دے دیا ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق منظور پشتین سمیت محمد اختر، اکرام اللہ، احسن اللہ، نور اللہ ترین، محمد شیر خان، وحید خان اور ایم ادریس پر 13 مئی 2018 کو کراچی میں ان کی مرکزی ریلی سے قبل عوامی جلسوں میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
پی ٹی ایم کے ایک اور رہنما اور موجودہ ایم این اے علی وزیر کے خلاف کراچی میں ایک جیسے 3 مقدمات درج کیے گئے ہیں، شہر میں ان کے خلاف درج بغاوت کے 2 مقدمات میں گرفتاری کے بعد سے وہ 31 دسمبر 2020 سے کراچی سینٹرل جیل میں قید ہیں۔
بدھ کو اے ٹی سی-II کے جج نے 2 مقدمات کی سماعت کی جس میں محمد اختر، اکرام اللہ اور احسان اللہ عدالت میں پیش ہوئے جو کہ ضمانت پر ہیں۔
سماعت کی آخری تاریخ پر تفتیشی افسر نے عدالت کی جانب سے پی ٹی ایم سربراہ اور دیگر کی گرفتاری کے لیے جاری کیے گئے ناقابل ضمانت وارنٹ پر عملدرآمد کے حوالے سے تعمیل کی رپورٹ دائر کی۔
تفتیشی افسر (آئی او) نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی ایم کے سربراہ اور دیگر رہنما کراچی میں موجود ہیں جہاں وہ اس وقت سندھ اسمبلی کی عمارت کے باہر کئی دنوں سے دھرنا دے رہے ہیں۔
جج نے آئی او کی سخت سرزنش کی کہ وہ شہر میں موجود ہونے کے باوجود ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے اور ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ دہرائے۔
عدالت نے منظور پشتین اور 4 دیگر مفرور رہنماؤں کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے متعلقہ حکام کو ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور نادرا کو ان کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے پانچوں افراد کی گرفتاری کے لیے دائمی وارنٹ بھی جاری کیے۔
پی ٹی ایم کے سربراہ کے خلاف گلشن معمار پولیس اسٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ کی انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 124-اے (اشتعال انگیز تقریر)، سیکشن 148 (مہلک ہتھیاروں کے ساتھ ہنگامہ آرائی)، سیکشن 149 (خلاف قانون مجمع کا ہر رکن اس جرم کا مرتکب ہے جو مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے کیا جائے)، سیکشن 153-اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، سیکشن 500 (ہتک عزت) اور سیکشن 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والے بیانات) اور سیکشن 7 (دہشت گردی کی کارروائیوں کی سزا) کے تحت 2 ایک جیسے مقدمات درج کیے گئے تھے۔