دنیا کے تیز ترین فاسٹ بالر شعیب اختر نے انکشاف کیا ہے کہ گھٹنوں کی تکلیف کا مسئلہ انہیں بچپن سے ہے۔ وہ 6 سال کی عمر تک چل نہیں پائے اور گھٹنوں کے بل چلتے تھے۔
آسٹریلوی اخبار سڈنی مارننگ ہیرالڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے شعیب اختر نے کہا کہ بچپن میں ڈاکٹرز نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ میں شاید بڑے ہو کر بھی نہ چل سکوں۔ میری زندگی تکلیف میں گزری ہے۔ کرکٹ کا پورا کریئر میں نے تکلیف میں گزارا۔ صرف 1999 وہ واحد سال تھا جب میں تکلیف کے بغیر کھیلا۔
شعیب اخترنے کہا کہ ان ہی تکالیف کے ساتھ میرے کیریئر کا آغاز ہوا اور سال 1999 ہی میرے لیے واحد ایسا سال تھا جو درد سے محفوظ رہا۔ انہوں نے بتایا کہ کریئر کے دوران ان کی 9 سرجریز ہوئیں۔ مختلف اوقات میں ان کے بائیں گھٹنے پر 42 اور دائیں گھٹنے پر 62 انجکشن بھی لگے تھے۔
شعیب اختر کے مطابق میرے گھٹنوں کی ہڈی پر ایک اور ہڈی بن گئی تھی۔ یہ بہت تکلیف دہ لمحات تھے۔ میں آئس باتھ کے دوران سوجاتا تھا، کئی بار ٹیم کے ساتھی مجھے آکر جگاتے تھے اور کہتے تھے کہ صبح کے 4 بج چکے ہیں باہر نکلو اور بستر پر سونے جاؤ۔
شعیب اختر نے آسٹریلوی ٹیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آسٹریلیا میں بہت محبت اور پذیرائی ملی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انہیں لگتا ہے پاکستان میں کوئی ایسا کھلاڑی ہے جس میں آسٹریلوی کھلاڑیوں جیسا جارحانہ پن ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرا آسٹریلیا میں مختلف مواقع پر مختصر قیام رہا۔ سابق آسٹریلوی فاسٹ بالر جیف تھامپسن کا گھر میرے لیے دوسرے گھر کی حیثیت رکھتا ہے۔ شعیب اختر نے بریٹ لی کو اپنا دوست بھی قرار دیا۔
شعیب اختر نے اپنی تیز ترین گیند کے حوالے سے کہا کہ امید ہے پاکستان کا کوئی نوجوان کرکٹر کسی دن میرا ریکارڈ توڑے گا۔ جس دن کسی بالر نے 161.3 کلومیٹر فی گھنٹہ سے تیز گیند کرائی۔ میں اسے گلے لگانے والا سب سے پہلا انسان ہوں گا۔