کووڈ کی طویل المعیاد علامات سے متاثر افراد کے پھیپھڑوں میں ایسی خلاف معمول تبدیلیوں کو شناخت کیا گیا ہے جس سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ ابتدائی بیماری کے بعد بھی مہینوں تک لوگوں کو سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔
یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں 36 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور انکشاف ہوا کہ ان کے پھیپھڑوں کو ہونے والے مائیکرو اسکوپک نقصان کو ممکنہ طور پر معمول کے ٹیسٹوں میں پکڑا نہیں جاسکتا۔
سانس لینے میں مشکلات لانگ کووڈ کے بیشتر مریضوں کی عام علامت ہوتی ہے مگر واضح نہیں تھا کہ یہ دیگر عناصر جیسے سانس لینے کے انداز میں تبدیلیاں یا تھکاوٹ ہیں یا کوئی بنیادی وجوہات ہیں۔
محققین نے بتایا کہ نتائج سے پہلی بار شواہد ملے ہیں کہ پھیپھڑوں کی صحت کووڈ سے متاثر ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پہلی تحقیق ہے جس میں سانس لینے میں مشکل کا سامنا کرنے لانگ کووڈ کے مریضوں کے پھیپھڑوں کو ہونے والے نقصانات کو ثابت کیا گیا ہے، نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس سے پھیپھڑوں کے مائیکرو اسٹرکچر کے اندر نقصان پہنچنے کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دریافت کی اہمیت واضح کرنے کے لیے مزید تحقیقی کام کی ضرورت ہے اور یہ جاننا ہوگا کہ خلاف معمول تبدیلیاں کس طرح سانس لینے میں مشکلات سے جڑی ہیں۔
اس مقصد کے لیے تحقیق میں 400 افراد کو شامل کیا گیا جائے گا۔
تحقیق کے دوران ایک خاص ایم آر آئی امیجنگ تیکنیک کو استعمال کیا گیا جس میں اسکینر کے اندر لیٹے مریضوں کو xenon گیس میں سانس لینے دیا گیا۔
اس گیس کو پھیپھڑوں سے دوران خون میں حرکت کرتے ہوئے ٹریس کیا جاسکتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ پھیپھڑوں کے افعال کیسے ہیں۔
اس کے مقابلے میں سی ٹی اسکینز سے محض پھیپھڑوں کی ساخت ظاہر ہوتی ہے۔
تحقیق میں 3 گروپس کو شامل کیا گیا تھا، ایک لانگ کووڈ کے مریض تھے جن کے سی ٹی اسکینز معمول کے مطابق تھے، دوسرا ایسے افراد کا تھا جو کووڈ کے باعث 3 ماہ قبل ہسپتال میں زیرعلاج رہے مگر انہیں طویل المعیاد علامات کا سامنا نہیں ہوا اور تیسرا صحت مند افراد کا گروپ تھا۔
ان تینوں گروپس کے نتائج کا موازنہ کیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ لانگ کووڈ کے مریضوں میں گیس کی منتقلی کا عمل نمایاں حد تک متاثر ہوچکا تھا حالانکہ ان کے دیگر ٹیسٹ ٹھیک تھے۔
اسی طرح کی خلاف معمول تبدیلیاں ان مریضوں میں بھی دریافت کی گئی جو شدید بیمار ہوکر ہسپتال میں زیرعلاج رہے۔
محققین نے بتایا کہ لانگ کووڈ سے متاثر مریضوں میں ابتدائی بیماری کی شدت اتنی یادہ نہیں تھی کہ انہیں ہسپتال میں داخل ہونا پڑتا، مگر ان میں سے کچھ کو ایک سال بعد بھی علامات کا سامنا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ توقع ہے کہ اب ہم لانگ کووڈ کے زیادہ مریضوں کے اسکینز کرکے نقصانات کی نوعیت اور وقت کے ساتھ بہتری کا تعین کرسکیں گے۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور bioRxiv پر شائع کیے گئے۔