معلومات تک رسائی کے قوانین پر عملدرآمد سے غلط معلومات کا تدارک

سید کو ثر عباس
آج کے ڈیجیٹل دور میں جہاں معلومات کی ترسیل انتہائی تیز اور آسان ہو چکی ہے، وہیں غلط معلومات (Misinformation) اور گمراہ کن بیانیے بھی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا، غیر مستند ذرائع اور ذاتی مفادات پر مبنی خبروں نے عوامی رائے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے “رائٹ ٹو انفارمیشن” (آر ٹی آئی) ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے، جو شہریوں کو مستند اور مصدقہ معلومات تک رسائی فراہم کرتا ہے۔
رائٹ ٹو انفارمیشن: ایک بنیادی جمہوری حق: رائٹ ٹو انفارمیشن آئین کے آرٹیکل 19-A کے تحت ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور وہ قانونی فریم ورک ہے جو شہریوں کو حکومتی معاملات اور پالیسیوں سے متعلق مستند معلومات حاصل کرنے کا حق دیتا ہے۔ پاکستان میں بھی آر ٹی آئی قوانین مختلف سطحوں پر نافذ کیے گئے ہیں، جن کا مقصد شفافیت کو فروغ دینا اور حکومت کو جوابدہ بنانا ہے۔
یہ قانون عوام کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ سرکاری فیصلوں، اخراجات، اور پالیسی سازی کے عمل پر نظر رکھ سکیں، جس کے نتیجے میں غلط معلومات اور افواہوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ جب عوام کو براہ راست سرکاری ذرائع سے مستند معلومات دستیاب ہوں گی، تو قیاس آرائیوں اور من گھڑت خبروں کی گنجائش کم ہو جائے گی۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں غلط معلومات اکثر سیاست، معیشت، اور سماجی مسائل سے متعلق پھیلائی جاتی ہیں، جو نہ صرف عوامی رائے کو گمراہ کرتی ہیں بلکہ قومی سلامتی اور استحکام پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔
رائٹ ٹو انفارمیشن کے مؤثر نفاذ سے شفافیت میں اضافہ ہوگا جب حکومتی معاملات واضح ہوں گے، تو قیاس آرائیوں اور غلط معلومات کے امکانات کم ہو جائیں گے۔صحیح معلومات دینے کے لئے میڈیاکی ذمہ داری انتہایئ اہم ہے، تحقیقاتی صحافت کو تقویت ملتی ہے اور صحافی مستند ذرائع سے حقائق حاصل کر سکتے ہیں۔
معلومات تک رسائی سے عوام میں شعور اجاگر ہوتا ہے، جب لوگ سرکاری فیصلوں اور پالیسیوں کے بارے میں خود مستند معلومات حاصل کر سکتے ہیں، تو وہ سوشل میڈیا یا غیر مستند ذرائع کی خبروں پر آنکھیں بند کر کے یقین نہیں کریں گے۔
معلومات تک رسائی کے قوانین پر عملدرآمد سے حکومت کی جوابدہی بڑھتی ہے، حکام اور سرکاری ادارے خود کو عوام کے سامنے جوابدہ محسوس کرتے ہیں، جس سے کرپشن اور بدانتظامی کی روک تھام ہوتی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران معلومات تک رسائی کے لئے سول سوسائٹی کی جانب سے بہت ایڈووکیسی کا کام کیا گیا اور بہت سارے بین الاقوامی معاہدوں کے مطا بق بھی اب پاکستان پر معلومات تک رسائی کے موثر قوانین پر عملدرآمد کروانا لازم ہے، پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر رائٹ ٹو انفارمیشن کے قوانین نافذ ہیں، جن میں رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017 (وفاقی سطح پر)، پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013، خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے اپنے آر ٹی آئی قوانین موجود ہیں ۔ معلومات تک رسائی کے تحت قوانین میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ تمام سرکاری ادارے اپنی تمام معلومات اپنی ویب سائٹس پر ڈالیں مگر اگر ان معلومات کا جائزہ لیا جائے تو وفاقی اداروں سمیت کسی ادارے نے معلومات کو از خود ویب سائٹس پر موجود نہ ہیں جس کی وجہ سے عوام تک معلومات نہ پہنچنے کی وجہ سے عوام اور خصوصا صحافی اندازے کی بنیاد پر خبریں شائع کرتے ہیں, جس کی وجہ سے کئی خبریں غلط بھی ہوتی ہیں ابھی حال ہی میں سول سوسائٹی کے ایک نیٹ ورک فافن اور ٹرسٹ فار ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ اکاؤنٹیبیلٹی کی جانب سے سرکاری اداروں کی معلومات سے متعلق ایک رپورٹ بھی جا ری کی جس کے مطابق اب بھی اکثر
سرکاری اداروں نے اپنی عوامی مفاد سے متعلق معلومات کو ویب سائٹس پر نہیں لگا یا گیا جس کی وجہ سے عوام قیاس آرایٓئیوں پر یقین کر کے اپنی سوچ مرتب کر رہی ہوتی ہے اور عوام میں قیاس آرائیاں پیدا کر دیتی ہیں،
یہ قوانین عوام کو معلومات تک رسائی کا قانونی حق دیتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان پر مکمل عملدرآمد میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں، جیسے کہ سرکاری اداروں کی عدم تعاون، سست روی، اور عوامی آگاہی کی کمی ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو معلومات تک رسائی کے قوانین پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کروا کے من گھڑت خبروں کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، تمام صوبوں اور وفاقی سطح پر انفارمیشن کمیشنز کو فعال بنانا، ان کو وسائل مہیا کرنا، سول سوسائٹی کی نمائندگی لازم رکھنا تا کہ کمیشن اپنے فیصلوں کو عوامی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے کرے، عوامی شعور بیدار کرنا انتہائی اہم یے جس سے لوگوں کو سکھایا جائے کہ وہ آر ٹی آئی کے ذریعے معلومات کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری ڈیٹا اور رپورٹس کو اپنی ویب سائٹس پر باقاعدگی سے شائع کرے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کو آر ٹی آئی کے ذریعے مستند معلومات عام کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ متعلقہ حکام کو پابند بنایا جائے کہ وہ عوام کی درخواستوں پر بروقت اور شفاف طریقے سے معلومات فراہم کریں، بصورت دیگر انفارمیشن کمیشنز کو اس قدر فعال بنا یا جاے کہ وہ ان شکایات کے فیصلے آزادانہ طور پر کر سکیں اور عوام کا ریاست کے اداروں پر اعتماد بحال کر سکیں، یقین جانے معلومات تک عوامی رسائی سے اداروں کی کارکردگی میں بہتری، عوامی مسائل کا حل،غلظ معلومات کے روک تھام، کرپشن کا خاتمہ اور عوام کا ریاست پر اعتماد بحال ہو گا۔
سید کو ثر عباس
ایگزیکٹو ڈائریکٹر، سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (SSDO)