لاہور: (آئی این این) ایک عرصہ سے ملکی ماہرین اور عالمی برادری چیخ چیخ کر ہمیں جھنجھوڑ رہی تھی کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بین الاقوامی طور پر دنیا کا تیسرا خطرناک ترین ملک بن چکا ہے ۔عالمی برادری موسماتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ سے لاحق طویل المدتی خطرات کو بھانپ چکی ہے۔ اس لئے ’’ ورلڈ واچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ اور برطانیہ کے چیف سائنٹیفک ایڈوائزر ڈیوڈ کنگ موسمی تبدیلیوں کو دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں لیکن کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہمیں نہ تو عالمی ماہرین اور نہ ہی عالمی فورم یہ احساس دلانے میں کامیاب ہو سکے ہیں کہ ہم واقعی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ’’ ریڈ زون ‘‘ میں ہیں۔ اب جب سیلاب کی شکل میں قدرتی آفات نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے تو دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب ہم اپنی کوتاہیوں پر نظر ثانی کریں گے؟
31 اکتوبر 2021ء میں سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو میں اقوام متحدہ کے ’’فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج ‘‘ کے زیر اہتمام شروع ہونے والی ایک عالمی کانفرنس، جس میں دنیا بھر سے پاکستان سمیت 197ممالک نے شرکت کی تھی کا بنیادی مقصد کرہ ارض کو موسمیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات سے نمٹنے کیلئے سفارشات مرتب کرنا تھا۔ اس کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ممالک کو مناسب اقدامات اٹھانے کی تنبیہ کی گئی۔ اسی عرصے کے آس پاس ایک اور عالمی تھنک ٹینک ’’ جرمن واچ‘‘ نے بھی اسی موضوع پر عالمی ماہرین کی زیرنگرانی ایک رپورٹ مرتب کی جس کا محور 2000ء تا 2019ء کے موسمی حالات اور ان سے جڑی قدرتی آفات کے واقعات کا جائزہ لینا تھا۔ جس میں یہ انکشاف کیا گیاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث عالمی معیشت کو2ہزار 56ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔
اپنی اسی رپورٹ میں جرمن واچ کے گلوبل کلائمیٹ انڈیکس میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک پاکستان کو عالمی تنظیموں کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔ اسی رپورٹ میں جرمن واچ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ دنیا بھر میں فلپائن اور ہیٹی کے بعد پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث قدرتی آفات جیسے سیلاب وغیرہ سے سب سے زیادہ اور مستقل طور پر متاثر ملک ہے۔پاکستان کے جی ڈی پی کے ہر یونٹ پراعشاریہ 52 فیصد نقصان صرف موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ مزید یہ کہ 2000ء سے لیکر 2019ء کے دوران پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 173 قدرتی آفات کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ایک اور رپورٹ میں ماہرین یہ بھی بتا چکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دیگر عوامل کے ساتھ سب سے زیادہ خطرہ سیلابوں کی شکل میں رونما ہوتا ہے۔جس کی وجہ کرہ ارض پر تیزی سے بڑھتا درجہ حرارت اور خلاف معمول گلیشیئرز کا پگھلنا ہے۔
آخر کب تک ؟ :یہ اور اس جیسی بے شمار رپورٹس چیخ چیخ کر ہمیں جھنجھوڑنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ ریکارڈ میں 2015ء کی سینٹ کی کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وہ رپورٹ ضرور موجود ہو گی جس میں کمیٹی نے حکومت وقت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ عشروں میں پاکستان کے شمال اور جنوب میں درجہ حرارت تین سے پانچ ڈگری بڑھنے کے امکانات ہیں۔جس کے نتیجے میں بھیانک تباہی ہو سکتی ہے۔وقت نے ثابت کیا کہ حکومت نے اس کمیٹی کی رپورٹ کونظر انداز کرتے ہوئے داخل دفتر کر دیا ہو گا۔ جس کے نتیجے میں غیر متوقع بارشیں ،سیلاب ، خشک سالی ، زلزلے ، لینڈ سلائیڈنگ، زیر زمین پانی کی سطح میں تشویش ناک حد تک کمی اور پگھلتے ہوئے گلیشیئرز موسمی تبدیلیوں کی وجہ بنے۔ دراصل یہی ہمارا المیہ ہے کہ جس مسئلہ کو پوری دنیا دہشت گردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہی ہے ۔
الرٹ تو 2010 ء سے ہے : قانون قدرت ہے کہ وہ ہر ذی شعور کو امتحان میں ڈالنے سے پہلے بار بار سنبھلنے کا موقع ضرور دیتا ہے لیکن اگر حضرت انسان قدرت کے ان مواقع کو خاطر میں ہی نہ لائے تو پھر اللہ کے عذاب کو آنے سے بھلا کون روک سکتا ہے۔ 2010ء کے بعد تقریبا ً ہر سال پاکستان کے کسی نہ کسی علاقے میں سیلاب آتے رہے ہیں۔2010ء میں آنے والے اس سیلاب کو ’’ پاکستان سپر فلڈ 2010ء ‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔اس سیلاب میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان کے ساتھ مالی نقصان بھی ہوا تھا۔ این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے 80 لاکھ افراد اس سیلاب سے متاثر ہوئے تھے جبکہ صوبے کو 90 کروڑ روپے کا مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا تھا۔سندھ میں 36لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ یہاں پرایک ارب30کروڑ روپے کا مالی نقصان ہوا تھا۔اسی طرح خیبر پختونخواہ کو ایک ہزار ہلاکتوں کے ساتھ ساڑھے 3ارب کا مالی نقصان اٹھانا پڑاتھا۔ بلوچستان کے سات لاکھ لوگ سپر فلڈ سے متاثر ہوئے تھے اور صوبہ کو 19کروڑ روپے کا مالی نقصان بھی اٹھانا پڑاتھا۔
پاکستان میں جہاں سیلاب ہر سال جانی اور مالی نقصان کا باعث بن رہے ہیں وہیں قحط سالی کا مسئلہ بھی وطن عزیز کیلئے خطرے کی علامت بنتا جا رہا ہے۔حالیہ سیلاب نے وطن عزیز میں جس طرح تباہی برپا کی ہوئی ہے اس سے صورت حال روز بروز گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ چونکہ اس کی شدت اور اس سے متاثرہ علاقوں کی تعداد میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس لئے سردست جانی و مالی نقصانات کا اندازہ ممکن نہیں۔اگر عالمی ماہرین کے بار بار انتباہ کے باوجود بھی ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگی تو پھر ہمیں ہر قسم کے حالات کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔