کسی مقصد میں ناکامی، گھریلو لڑائی جھگڑے اور بے روزگاری جیسے مسائل انسان کو ڈپریشن کی طرف لے جاتے ہیں، جس کے باعث وہ کوئی انتہائی قدم اٹھانے بھی دریغ نہیں کرتا۔
بہت زیادہ ذہنی دباؤ یا جسمانی تھکن میں جب انسان بالکل تنہا ہو تو ایسی صورت میں ڈپریشن کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، بعض افراد انتہائی حساس ہوتے ہیں اس لیے چھوٹی چھوٹی باتوں کو خود پرحاوی کرلیتے ہیں۔
اس حوالے سے کی گئی ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ڈپریشن یا ذہنی تناؤ صرف ’سیروٹونن‘نامی ہارمون کی کمی یا بے ترتیبی کے باعث نہیں ہوتا اس کی دیگر وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔
اب تک زیادہ تر ماہرین کا خیال تھا کہ ’سیروٹونن‘ نامی ہارمونز جنہیں ’ہیپی ہارمونز‘ بھی کہا جاتا ہے، ان کی کمی یا بے ترتیبی کی وجہ سے لوگوں میں ذہنی تناؤ، ڈیرپشن یا موڈ کی خرابی جیسے عوامل ہوتے ہیں۔
’سیروٹونن‘نامی ہارمون خون میں موجود خصوصی کیمیکل ہے جو کہ انسانی اعصابی اور ہاضمے کو نظام کو بہتر بنانے سمیت انسان کی سوچ، یادداشت اور موڈ پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔
’سیروٹونن‘کی کمی یا اس کی بے ترتیبی کو کسی بھی انسان میں موڈ کی خرابی، ذہنی تناؤ یا ڈپریشن کا سبب سمجھا جاتا رہا ہے اور بظاہر ٹیسٹس سے ڈپریشن کے شکار افراد میں اس کیمیکل کی کمی بھی نوٹ کی جاتی ہے۔
دنیا بھر کے ڈاکٹرز ڈپریشن کے شکار افراد کو ’سیروٹونن‘نامی ہارمون یا کیمیکل کو بڑھانے یا اسے بہتر بنانے کی دوائیاں دیتے رہے ہیں، جن سے متاثرہ افراد خوشی محسوس کرتے رہے ہیں۔
نشریات کی بندش: اے آر وائی کی لائیو ٹرانسمیشن یہاں دیکھیں
تاہم اب ایک تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ڈپریشن صرف ’سیروٹونن‘ نامی کیمیکل یا ہارمون کی کمی سے نہیں ہوتا۔
سائنسی جریدے ’نیچر‘ کے مالیکولر سیکارٹری‘ میں شائع ماہرین کی تحقیق کے مطابق ’سیروٹونن‘ نامی کیمیکل یا ہارمون کی مقدار ان افراد میں بھی ویسے ہی پائی گئی جنہیں ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کی کوئی شکایت نہیں تھی۔
تحقیق کے مطابق ماہرین نے ڈیریشن کی وجوہات جاننے کے لیے ماضی میں کی جانے والی ڈیڑھ درجن تحقیقات کا مطالعہ کیا، جن کے نتائج حیران کن تھے۔
ماہرین نے ایسی تحقیقات کا جائزہ لیا جن میں ڈپریشن کے شکار افراد اور صحت مند افراد کا ڈیٹا تھا اور ان رپورٹس میں ’سیروٹونن‘ نامی کیمیکل یا ہارمون سے متعلق معلومات بھی دستیاب تھی۔
ماہرین نے نوٹ کیا کہ صحت مند افراد میں بھی ’سیروٹونن‘ نامی کیمیکل یا ہارمون کی ویسی ہی مقدار موجود تھی جو کہ ڈپریشن کے شکار افراد میں تھی۔
ماہرین نے اخذ کیا کہ صرف ’سیروٹونن‘ کی کمی یا بے ترتیبی کو ڈپریشن سے جوڑنا درست نہیں، اس کے دیگر عوامل بھی ہو سکتے ہیں۔
ماہرین نے اپنی تحقیق میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہا کہ ڈپریشن کے شکار افراد کو ’سیروٹونن‘کی مقدار بڑھانے یا بہتر بنانے کی دوائیاں دی جانی چاہیے یا نہیں؟
تاہم ماہرین کی تازہ تحقیق کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ ڈپریشن سے متعلق اب تک سمجھی جانے والی تمام باتیں مفروضہ نکلیں اور اس بات پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ کیا اب ڈپریشن کے شکار افراد کو ’سیروٹونن‘نامی کیمیکل بڑھانے یا بہتر بنانے کی دوائیاں دی جانی چاہیے یا نہیں؟