گلمت کے غیر روایتی ہوٹل میں کھائے گئے روایتی کھانے

پہلی نظر میں ہنزہ کے قریب واقع قلحہ گلمت میں اونچے پہاڑوں کے سوا دیکھنے کے لیے کوئی خاص چیز نظر نہیں آتی۔ ہم نے اکتوبر کے اوائل میں عطا آباد جھیل کا قصد کیا تھا۔ ہم ایک دوست کے اصرار پر ’رومی یورٹس‘ دیکھنے جارہے تھے۔ وہاں آپ مشہور ترک ڈرامے دیریلیش ارتغرل میں دکھائے گئے خیموں کی طرح نظر آنے والے خیموں میں وقت گزار سکتے ہیں۔ ہم جس دوست کے اصرار پر وہاں جارہے تھے وہ خود بھی اس مقبول ترک ڈرامے کا شیدائی تھا۔

اور یہاں ہمیں کچھ غیر متوقع چیزیں دیکھنے کو ملی۔

ہم نے فرش پر بچھے ہاتھ سے بُنے قالینوں کی تعریف کی تو رومی یورٹس کے منیجر نے یورٹس کے عقب میں ایک جانب اشارہ کیا جہاں مقامی خواتین ایک مٹی سے بنے گھر میں قالین بُنتی تھیں۔ خیر ہماری جیبوں کے حساب سے وہ قالین بہت مہنگے تھے اس وجہ سے ہم نے وہاں سے صرف بٹوے خریدنے پر ہی اکتفا کیا۔

دوپہر تک ہم پانچوں افراد (بشمول ہمارا ڈرائیور جو ہمارا گائیڈ بھی تھا) کو بھوک لگنے لگی تو ان قالین بُننے والی خواتین نے ہمیں ایک جگہ کا بتایا جہاں مقامی خواتین نے ایک روایتی ریسٹورنٹ قائم کیا ہوا تھا۔

گلمت پولو گراؤنڈ کے قریب واقع بوزلانج ٹریڈیشنل ریسٹورنٹ ہم سیاحوں کے لیے ایک چشم کشا تجربہ تھا۔ ’بوزلانج‘ دراصل ہنزہ کے پہاڑوں میں قدرتی طور پر اگنے والی ایک جڑی بوٹی کو کہتے ہیں۔ مقامی افراد اس کی چائے بناتے ہیں۔ ہم تو ہلکی پھلکی بھوک مٹانے گئے تھے لیکن وہاں ہم نے کھانوں کا بھرپور تجربہ کیا اور تجربہ بھی ایسا جو ہمیشہ یاد رہے گا۔

اس سے قبل ہمارا چند مقامی خواتین سے سامنا ہوا تو وہ اپنے درمیان ’باہر کے لوگوں‘ کو دیکھ کر شرماتی ہوئی ایک طرف کو ہوگئیں۔ اس سے ہمیں یہ محسوس ہوا کہ شاید ہم یہاں کے ان رسم و رواج، روایات اور آداب سے ناواقف ہیں جن کا خواتین سے ملتے ہوئے خیال رکھنا چاہیے۔ لیکن ہمارا خدشہ اس وقت بے بنیاد ثابت ہوا جب ہم نے ریسٹورنٹ چلانے والی خواتین سے بات چیت کی۔

طاہرہ سوپ کے لیے تازہ نوڈلز تیار کرتے ہوئے
بوزلانج ٹریڈیشنل ریسٹورنٹ کی مالک اور شیف، ملیکہ سلطانہ، رشیدہ بیگم اور ان کی معاون طاہرہ بیگم نے ہمیں خوشدلی اور گرم جوشی سے خوش آمدید کہا۔ ہماری ہچکچاہٹ کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے مسکراہٹوں اور پیار بھرے رویے کے ساتھ ہم سے بات چیت کی۔ نتیجے کے طور پر ہم نے مینیو میں موجود ہر چیز کا آرڈر دے دیا۔

جب ہم ان سے کچھ بے تکلف ہوگئے تو ہم نے دریافت کیا کہ کیا انہیں اس کام کا آغاز کرنے میں گاؤں کے مردوں اور بزرگوں کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا؟

انہوں نے فوراً ہی اس کا نفی میں جواب دیا۔ ملیکہ سلطانہ نے کہا کہ ’مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے لیے گھروں سے نکلنا ہو تو شرمانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘۔

وہ اور ان کی 2 ساتھی تقریباً 5 سالوں سے سخت پیشہ ورانہ خطوط پر یہ کیفے چلا رہی ہیں۔ جس چیز نے ہمیں حیران کیا وہ مینیو تھا، جس میں بہت عمدہ انگریزی میں پکوان کی تفصیلی وضاحت کی گئی تھی۔ ناموں، اجزا اور قیمتوں کے ساتھ کھانوں کی تصاویر بھی پرنٹ تھیں۔ بوزلانج کیفے کا مینیو کسی بھی مشہور شہری ریسٹورنٹ کو شرمندہ کرسکتا تھا۔

اور صرف مینیو ہی نہیں بلکہ ان کے کھانے بھی اتنے ہی شاندار تھے۔

یہاں میٹھے اور نمکین کھانوں کا امتزاج تھا۔ یہاں کئی طرح کی بھری ہوئی یا گارنش کی ہوئی چپاتیاں موجود تھیں۔ ان میں میٹھے گرال پینکیک (گندم کے ٹورٹیلا جس پر شہتوت کا جام لگا ہوا ہو)، ذائقہ دار غلمنڈی (گندم سیاہ کے پینکیکس)، ذائقہ دار سمن جو ایک میٹھا پکوان ہے اور ایک میٹھے سوس کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، شامل تھے۔ اس کے علاوہ یہاں ارزک اور چلپیک (روایتی پراٹھہ اور بریڈ رول)، مولیدا (چھاچھ میں پکے ہوئے چپاتی کے ٹکڑے جن پر خوبانی کا تیل ڈال کر پیش کیا جاتا ہے) اور قاق موچھ (میٹھی خشک خوبانی اور نوڈل سوپ) بھی پیش کیا جاتا ہے۔

غلمنڈی
باورچی خانے میں ان تینوں خواتین نے کھانے کی تیاری شروع کرنے سے پہلے اپنی رنگین کڑھائی والی ٹوپیاں پہن لیں۔ طاہرہ نے آٹا چھاننا شروع کیا اور پھر اسے گوندھا اور بیلن سے چپٹا کردیا۔ انہوں نے نوڈل بنانے والی مشین سے گزارنے کے لیے گندھے ہوئے آٹے کا کچھ حصہ الگ رکھ دیا۔ ملیکہ سلطانہ نے فلیٹ بریڈ بنانے کے لیے برتن چولہے پر رکھا بعد ازاں فلیٹ بریڈ تیار ہونے کے بعد انہوں نے اس پر مختلف چیزوں سے سجاوٹ کردی۔ انہوں نے تازہ نوڈلز کو ابالنے کے لیے پانی سے بھری بڑی دیگچی بھی چولہے پر رکھی اور اس دوران وہ قاق موچ سوپ کے لیے خوبانیاں بھی پکاتی رہیں۔

انہوں نے ان پکوانوں میں بہت کم سرخ مرچیں (صرف ہمارے لیے) کچھ لہسن، تل، السی کی بیج اور نمک شامل کیا۔ ہمارا فوٹوگرافر چولہے کے پیچھے کھڑی ان خواتین کی تصاویر لینے لگا۔ جیسے ہی کھانوں کی خوشبو ہم تک پہنچی تو ہماری بھوک مزید بڑھ گئی۔

اسی وقت میں نے ایک مرد اور کچھ خواتین کو کھیت میں سے آلو کی فصل کی کٹائی کرتے ہوئے دیکھا۔ شہر میں ایسا منظر شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کی توجہ باہر کی طرف مبذول کروائی تاکہ ان کی توجہ کھانے کے نہ ختم ہونے والے انتظار سے ہٹائی جاسکے۔ اس نظارے نے ہمیں خوب محظوظ کیا۔

تھوڑی دیر کے بعد، طاہرہ اس باغیچے سے گاجر، ہری پیاز، بند گوبھی اور تازہ دھنیا توڑنے چلی گئیں اور ہمارا فوٹوگرافر اس سارے عمل کو عکس بند کرنے کے لیے ان کے پیچھے ہولیا۔

ملیکہ سلطانہ، راشدہ اور طاہرہ کو تمام پکوان تیار کرنے میں ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا تاہم آخر میں ہماری میز ان طرح طرح کے پکوانوں سے سجی ہوئی تھی جو وہاں عام دنوں اور خاص مواقعوں پر تیار کیے جاتے ہیں۔

قوروتھ موچ (گوشت اور نوڈلز کا سوپ) کی صورت میں یاک کا گوشت بھی ہماری میز پر موجود تھا، یہاں یاک کا گوشت بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمیں یہ بیف کی نسبت زیادہ سخت لگا لیکن اسے بہت باریک کاٹا گیا تھا اور اچھی طرح پکایا گیا تھا۔ یوں کہیے ہم نے ہنزہ کے تمام روایتی کھانے چکھ لیے تھے۔

میں نے وہاں موجود کچھ مقامی صارفین سے بھی بات کی، ان کا کہنا تھا کہ یہاں پیش کیا جانے والا کھانا ذائقے میں بالکل ویسا ہی ہوتا ہے جیسے ان کے گھر کی خواتین بناتی ہیں۔ یہاں مقامی روایت کے مطابق تہواروں اور خاص دنوں میں یہ روایتی پکوان تیار کرکے ایک دوسرے کے گھر بھیجے جاتے ہیں۔

تمام پکوان چٹ کر جانے کے بعد ہم نے بوزلانج چائے کا آرڈر دیا۔ اس کے بعد ہمارے ان نئے دوستوں کو الوداع کرنے کا وقت آیا تو فوراً ہی ہم سے ایک گروپ سیلفی کی فرمائش کردی گئی جس کا ہم بخوشی حصہ بنے۔

سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں رہنے کے وعدوں کے ساتھ (بوزلانج کا اپنا ای میل اور ایک فیس بک پیج بھی ہے)۔ ہم نے ملیکہ سلطانہ، راشدہ اور طاہرہ کو الوداع کہا اور ہنزہ شہر واپسی کی راہ لی۔ ہم خوش تھے کہ ہم اپنے بھرے ہوئے پیٹوں میں اس علاقے کی غذائی ثقافت بھی لیے جارہے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں