روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافے کا سلسلہ جاری ہے اور ڈالر 3 روپے مہنگا ہونے کے بعد 189.25 روپے کی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
جمعرات کو بھی ملک میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کا رجحان جاری رہا اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں تین روپے کا اضافہ ہوا۔
جمعرات کو ڈالر کی قدر تین روپے اضافے کے بعد ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور ایک ڈالر 189 روپے 25 پیسے کا ہو گیا ہے۔
چیئرمین فاریکس ایسوسی ایشن ملک بوستان نے روپے کی قدر میں مسلسل کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ معیشت کو نقصان پہنچاہا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ماہ میں ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے بیرونی قرضوں کے بوجھ میں ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے جاری مذاکرات میں ڈیڈ لاک اور بڑھتی امپورٹ روپے پر جاری دباؤ بڑھارہی ہیں جس کے اثرات سے روپیہ روز بروز کمزور ہورہا ہے۔
چیئرمین فاریکس ایسوسی ایشن نے اسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا کہ وہ قیمت کو کنٹرول کرنے کے لیےمداخلت کرے اور سٹے بازی میں ملوث بینکوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
انہوں نے سپریم کورٹ سے بھی اپیل کی کہ وہ سیاسی معاملات پر فوری فیصلہ سنائے تاکہ غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہو اور بے چینی کی فضا ختم ہو۔
دوسری جانب کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ درآمد کنندگان کو ادائیگیوں کے لیے ڈالر کا بندوبست کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
سیاسی صورتحال کی وجہ سے جہاں حکومت خود بحران کا شکار ہے، وہیں پالیسی ساز روپے کی روز بروز گرتی ہوئی قدر کی کوئی واضح وجہ بتانے سے قاصر ہیں۔
تاجروں اور صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ فری فلوٹ ایکسچینج ریٹ آئیڈیا کام نہیں کر رہا اور وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ استحکام لانے میں اپنا کردار ادا کرے کیونکہ شرح مبادلہ میں اتار چڑھاؤ معیشت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ روپے کی بدترین گراوٹ کی وجہ سے پیداواری لاگت میں پہلے ہی 20 فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے خام مال کی درآمدی لاگت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی موجودہ صورتحال پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ حکومت کا مؤقف ہے کہ درآمد کنندگان کی جانب سے ڈالر کی ڈالر کی بڑھتی ہوئی مانگ کے سبب ایسا ہوا ہے۔