سری لنکا میں معاشی بحران کے باعث مشتعل عوام نے حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا کی بندش کے خلاف احتجاج شروع کردیا جس کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
سری لنکا 1948 میں آزادی کے بعد سے بدترین بحران سے دوچار ہے اور ملک کو اس وقت مہنگائی اور بجلی کی قلت کے ساتھ ساتھ ایندھن، اشیائے خورونوش اور دیگر اہم اشیا کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
جمعرات کو دارالحکومت کولمبو میں عوام کی جانب سے صدر گوٹابیا راجا پکسے کی رہائش گاہ پر حملے کے بعد انہوں نے جمعے کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی اور پیر کی صبح تک ملک گیر کرفیو کا اطلاق ہو گا۔
مرکزی اپوزیشن اتحاد سماگی جانا بلویگیا نے سوشل میڈیا بندش کو مسترد کرتے ہوئے حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
سماگی جانا بلویگیا کے رکن اسمبلی ہرشا ڈی سلوا نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر راجا پکسے کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے آمرانہ طرز حکمرانی کے خلاف لہر چل چکی ہے۔
دارالحکومت کے آزادی اسکوائر کی جانب سے مارچ کرنے والے اپوزیشن کے اراکین اسمبلی اور ان کے حامیوں کے احتجاج کو روکنے کے لیے خودکار اسلحے سے لیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
اپوزیشن لیڈر سجیتھ پریما داسا کے گھر سے چند میٹر دور راستے بند کردیے گئے تھے اور دو گھنٹے تک صورت حال انتہائی کشیدہ رہی کیونکہ مظاہرین اور سیکیورٹی اہلکار آمنے سامنے کھڑے تھے تاہم بعد میں مظاہرین پرامن طریقے سے منتشر ہو گئے۔
اپوزیشن کے ایک اور رکن ایرن وکرمارتنے نے ایمرجنسی کی مذمت کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور شہر کی سڑکوں پر فوجی دستوں کی موجودگی کی مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم اب بھی جمہوریت ہیں۔
دوسری جانب ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کو فیس بُک، ٹوئٹر، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی روکنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن اس بندش کے باوجود ملک کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
سری لنکا کے نجی چینلز کے مطابق انٹرنیٹ ریگولیٹر کے سربراہ نے پابندی کے بعد عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
تاہم بعد میں انٹرنیٹ کی بندش کا یہ فیصلہ منسوخ کردیا گیا کیونکہ انسانی حقوق کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وزارت دفاع کو ملک میں سینسرشپ اور انٹرنیٹ جیسے اقدامات کا کوئی اختیار نہیں ہ
اتوار کو بڑے پیمانے پر احتجاج کا اعلان کیا گیا تھا لیکن سوشل میڈیا کی بندش کی وجہ سے منتظمین نے احتجاج کامنصوبہ منسوخ کر دیا۔
بڑھتے ہوئے احتجاج، عوام کے دباؤ اور تناؤ کے سبب حکومت میں بھی اختلافات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور صدر کے بھتیجے نمل راجا پکسے نے سروس بندش کی مذمت کی۔
وزیر کھیل نمل نے کہا کہ میں انٹرنیٹ کی بندش کو کبھی معاف نہیں کروں گا اور ادھر ایک جونیئر پارٹی نے بھی عندیا دیا ہے کہ وہ بھی ایک ہفتے کے اندر حکومت چھوڑدیں گے۔