روس نے کہا ہےکہ وہ کیف کے ساتھ بات چیت کے بعد یوکرین کے دو شہروں کے گرد جاری فوجی سرگرمیاں کم کردیں گے جس کے بعد دونوں صدور کے درمیان ملاقات کا امکان بڑھ گیا ہے۔
نجی اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق استنبول میں ہونے والی براہِ راست گفتگو کے نتیجے میں ایک ماہ سے زائد عرصے تک جاری رہنے والا تنازع ختم ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے، اس لڑائی میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے جبکہ لاکھوں اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔
استنبول میں روس یوکرین مذاکرات کے آغاز میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ دونوں فریقین کے ’تحفظات جائز‘ ہیں تاہم انہوں نے وفود پر زور دیا کہ ’اس تباہی کو ختم کریں‘۔
بعدازاں مذاکرات میں شریک یوکرینی نمائندہ ڈیوڈ اراکامیا کا کہنا تھا کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان ملاقات کے لیے ’کافی‘ شرائط موجود ہیں۔
انہوں نے سیکیورٹی کی ضمانت کے لیے ایک بین الاقوامی طریقہ کار کا بھی مطالبہ کیا ہے جہاں ضامن ممالک نیٹو کے آرٹیکل نمبر 5 کے مطابق یا اس سے بھی زیادہ مضبوطی سے کام کریں گے۔
روس کے ڈپٹی وزیر دفاع الیگزینڈر فومین نے کہا کہ ’یوکرین کی غیر جانبداری اور غیر جوہری حیثیت‘ سے متعلق بات چیت میں پیش رفت ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے دوران’دارالحکومت کیف اور چرنیگیو شہر کے ارد گرد فوجی سرگرمیوں کو کئی گنا کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘۔
علاوہ ازیں مذاکراتی وفد کے سربراہ ولادیمیر میڈنسکی نے کہا کہ ’معنی خیز بات چیت‘ ہوئی ہے۔
مغربی شکوک و شبہات
تاہم ماسکو کی جانب سے یوکرین کے دو شہروں کے گرد جھڑپیں کم کرنے کے عندیہ کے بعد امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی کے رہنماؤں نے مغرب پر زور دیا کہ وہ روس کے خلاف اپنی حفاظت سے دستبردار نہ ہوں۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے ڈاؤننگ اسٹریٹ کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ’انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جب تک یوکرین پر مسلط وحشت ختم نہیں ہو جاتی تب تک مغرب کے عزم میں کوئی نرمی نہیں ہو سکتی‘۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں روس کی ’سنجیدگی‘ پر شک ہے۔
مراکش میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جو روس کہتا ہے اور جو وہ کرتا ہے ہم اس پر بعد میں توجہ مرکوز کریں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’روس جو کچھ کر رہا ہے وہ یوکرین اور اس کے لوگوں کے ساتھ مسلسل ظلم ہے اور اس پر ہماری گفتگو جاری ہے‘۔