روس کے صدر ویلادیمیر پیوٹن نے چینی صدر شی جن پنگ سے فون پر بات کرنے اور یوکرین کے ساتھ تنازع مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی حمایت کے بعد یوکرینی نمائندے سے بات کرنے کے لیے اپنا وفد منسک بھیجنے پر آمادگی کا اظہار کردیا۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق چین کی وزارت خارجہ نے اپنی ویب سائٹ میں جاری بیان میں کہا کہ صدر شی جن پنگ نے دونوں فریقین سے سرد جنگ کی ذہنیت دور کرنے اور تمام ممالک کے جائز سیکیورٹی خدشات کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ شی جن پنگ نے زور دیا کہ مذاکرات کے ذریعے متوازن، مؤثر اور پائیدار یورپی سیکیورٹی کا طریقہ کار تیار کریں۔
چینی صدر نے کہا کہ چین تمام ممالک کی خود مختاری اور سرحدی آزادی کا احترام کرتا ہے۔
ادھر کریملن نے بیان میں بتایا کہ صدر شی کو روسی اقدامات کا احترام ہے اور قریبی رابطے، اقوام متحدہ میں دوطرفہ تعاون کے لیے تیار ہیں جہاں دونوں ممالک ویٹو کے اختیارات کے ساتھ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین ہیں۔
کریملن کے مطابق پیوٹن نے صدر شی کو بتایا کہ یوکرین میں روس کی فوجی کارروائی لوگوں کے تحفظ اور نسل کشی کے خلاف ضروری تھی، جس کو مغرب بے بنیاد پروپیگنڈا قرار دے رہا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق پیوٹن نے چینی صدر کو بتایا کہ امریکا اور نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) نے طویل عرصے سے روس کے جائز سیکیورٹی خدشات کو نظر انداز کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ امریکا اور نیٹو کے حوالے سے پیوٹن نے بتایا کہ وہ اپنے وعدے سے مستقل مکر رہے تھے، مشرقی علاقے میں فوجی تعنیاتی میں اضافہ کردیا تھا اور روس کی حکمت عملی کی بنیاد کو چیلنج کر رکھا تھا۔
بیان کے مطابق پیوٹن نے کہا کہ روس یوکرین کے ساتھ اعلیٰ سطح پر مذاکرات کرنے کا خواہاں ہے۔
دوسری جانب روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے نے مذاکرات کو مشروط کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کی فوج ہتھیار ڈال دیتی ہے تو مذاکرت ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماسکو نہیں چاہتا تھا کہ یوکرین ‘نیو نازی’ یوکرین پر حکمرانی کریں۔
خیال رہے کہ روسی افواج نے گزشتہ روز صدر پیوٹن کی جانب سے حملے کے حکم کے بعد یوکرین پر زمینی، فضائی اور سمندری راستوں سے حملہ کیا تھا۔
یوکرین کے دارالحکومت سمیت مختلف شہروں میں روسی افواج نے میزائل برسائے جبکہ کیف نے ملک بھر میں مارشل لا نافذ کردیا گیا تھا۔
پیوٹن نے دوسرے ممالک کو خبردار کیا تھا کہ روس کی کارروائی میں مداخلت کی کوئی بھی کوشش ایسے نتائج کا باعث بنے گی جو انہوں نے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔
تاہم چین نے ابتدائی طور پر بیان میں یوکرین پر روسی کے اقدامات کو حملہ قرار دینے یا ماسکو پر تنقید کرنے سے گریز کیا تھا۔