عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ریاستی ملکیتی کمپنیوں (ایس او ایز) کے ہنگامی واجبات کو بڑا مالیاتی خطرہ قرار دیتے ہوئے اپنے پروگرام کے تسلسل کو جون کے اختتام تک نئے ایس او ای قانون کی منظوری سے منسلک کردیا تا کہ ان کمپنیوں کے شفاف انتظام کو یقینی بنایا جاسکے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان کمپنیوں کے ہنگامی واجبات مجموعی ملکی پیداوار کے تقریباً 8 فیصد یا کم و بیش 50 کھرب روپے ہیں۔
پاکستانی معیشت پر ایک حالیہ رپورٹ کے ایک خصوصی باب میں ائی ایم ایف نے کہا کہ ‘خسارے میں چلنے والی ایس او ایز کے ہنگامی واجبات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ حکومتی ضمانتیں اسے کور نہیں کرسکتیں جو قرض کی پائیداری کے لیے اضافی خطرے کی نشاندہی کرتا ہے’۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ حکام نے گردشی قرضوں میں جی ڈی پی کے ایک فیصد کے قریب واجبات کو تسلیم کیا ہے لیکن گردشی قرضوں کے بقیہ واجبات (جو جی ڈی پی کے 0.8 فیصد سے کم ہے) اور خسارے میں چلنے والی سرکاری کمپنیوں (جی ڈی پی کا تقریباً 5 سے 6 فیصد) اور مالیاتی سیکٹر کے واجبات کا حساب قرض کی ڈائنامکس کے دباؤ جانچنے سے کیا جاتا ہے جس ہنگامی واجبات کا ایک جھٹکا ہوتا ہے۔
ہنگامی واجبات کسی ادارے کے وہ واجبات ہوتے ہیں جو مستقبل کے کسی غیر یقینی واقعے مثلاً کسی زیر التوا قانونی دعوے کے نتیجے میں لاگو ہوں، ہنگامی واجبات بیلنس شیٹ میں نہیں دکھائے گئے ہیں لیکن انہیں مناسب طور پر ظاہر کرنا چاہیے۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کا ایس او ای سیکٹر خراب کارکردگی اور کمزور کارپوریٹ گورننس کی وجہ سے متاثر ہوا ہے جس سے اہم مالیاتی خطرات لاحق ہیں۔
غیر مالیاتی کمرشل ایس او ایز کے مجموعی اثاثے سال 2019 میں جی ڈی پی کے 44 فیصد کے برابر تھے لیکن انہوں نے محض 0.7 فیصد رسمی ملازمتیں فراہم کیں۔
سال 2021 میں وزارت خزانہ کی شائع کردہ ایک جامع ٹرائیج رپورٹ کی بنیاد پر 213 ریاستی ملکیت کی کمپنیاں ہیں، جن میں سے صرف 85 (18 مالیاتی اور 67 غیر مالیاتی) کے آپریشنز تجارتی ہیں ۔
آئی ایم ایف نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ایس او ای سیکٹر کے قانونی، ریگولیٹری اور پالیسی فریم ورک اپ ڈیٹ کو تیز کرے جس کے لیے اس نے رواں سال جون کے آخر تک ‘آئی ایم ایف کی سفارشات کے مطابق ایس او ای قانون کی پارلیمانی منظوری’ کو یقینی بنانے کے لیے ایک اسٹرکچرل معیار مقرر کیا ہے۔