لاہور: قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا ہے کہ قبر میں بھی چلا جاؤں حقائق کبھی بھی نہیں بدلیں گے۔
احتساب عدالت لاہور میں منی لانڈرنگ ریفرنس کی سماعت ہوئی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف عدالت میں پیش ہوئے۔
شہباز شریف نے کہا کہ عدالت اجازت دے میں 2 منٹ بات کرنا چاہتا ہوں یہاں جو مقدمہ چل رہا ہے یہی سارا مواد این سی اے لندن بھجوائے گئے اور ڈیلی میل نے میرے خلاف خبر لگائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ گرانٹ میں کرپشن کا الزام لگایا گیا، اے آر یو، قومی احتساب بیورو (نیب)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے تمام ریکارڈز این سی اے کو بھجوائے، میرے اور سلمان شہباز کے خلاف وہاں تحقیقات ہوئیں۔غریب الوطنی میں رہ کر سوچا کہ کچھ کماؤں کیونکہ ملکہ برطانیہ کے سہارے تو نہیں رہنا تھا، میں نے وہاں رہ کر اثاثہ بنایا جس کا سارا ریکارڈ موجود ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ میں نے 2004 میں پاکستان آنے کی کوشش کی جو کیس ہے یہ وہی ہے جس کا تذکرہ آج کل اخبارات میں ہو رہا ہے۔ سارے کے سارے ادارے مل کر الٹے ہو گئے لیکن کچھ نہیں نکلا۔ پونے دو سال تحقیقات جاری رہیں اور حکومت میرے اکاؤنٹ فریز کرواتی رہی۔
شہباز شریف نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ایک ایک دھیلے کی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ میرے پاس موجود ہے۔ مجھے نیب کے عقوبت خانے میں رکھا گیا، میں خطاکار ہوں اور اللہ سے معافی مانگتا ہوں۔ کرپشن تو دور کی بات بلکہ میں نے غریب قوم کے ایک ہزار ارب روپے کی بچت کی ہے۔ میں نے کئی منصوبوں میں کم سے کم بڈ کروائی اور اربوں روپے بچائے۔
انہوں نے کہا کہ قبر میں بھی چلا جاؤں حقائق کبھی بھی نہیں بدلیں گے۔ سار ے حقائق وہی ہیں جو لندن کی عدالت میں پیش کیے گئے۔ اب دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو گیا ہے اور میں نے عوامی مفاد میں کئی پروجیکٹ کا انعقاد کیا، شفاف بولی کروائی اور کم ترین سطح پر پروجیکٹ کے ٹھیکے دیئے۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ میں خود بولی کو کم سے کم کروانے کے لیے کمپنوں سے مشاورت کرتا تھا اور مجھے اگر عوامی پیسے کا احساس نہ ہوتا تو میں یہی پروجیکٹ کروڑوں میں دیتا۔
شہباز شریف نے نیب عدالت کے جج کو دستاویز دیں اور کہا کہ کتاب کے اندر سب کچھ لکھا ہوا ہے۔
جج نے شہباز شریف سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ امجد پرویز آپ کی وجہ سے جرح لمبی کر رہے ہیں، جس پر شہباز شریف نے کہا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو جرح مختصر ہوتی تاہم اگر عدالت مجھے کہتی ہے تو میں چلا جاتا ہوں۔
جس پر جج نے شہباز شریف کو کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں یہ صرف ایسے بات کی ہے۔ نیب کے گواہ ایس ای سی پی کے بیان پر جرح مکمل کر لی گئی جس کے بعد عدالت نے شہباز شریف کو واپس جانے کی اجازت دے دی۔
نیب گواہ غلام مصطفیٰ ایڈیشنل رجسٹرار ایس ای سی پی کے بیان پر وکلا نے جرح کی۔ امجد پرویز نے نیب گواہ سے سوال کیا کہ کیا شہباز شریف کبھی رمضان شوگر مل کے ڈائریکٹر رہے ہیں؟
نیب گواہ نے کہا کہ شہباز شریف کبھی رمضان شوگر مل کے ڈائریکٹر نہیں رہے، جس پر شہباز شریف نے کہا کہ ان کا بس چلے تو مجھے تمام پاکستان کی کمپنیوں کا ڈائریکٹر بنا دیں۔
جج نے شہباز شریف سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی کمپنیوں کا ڈائریکٹر بنا دیں تو کیا آپ قبول کر لیں گے؟ احتساب عدالت جج کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
احتساب عدالت نے نیب کے گواہوں کو 18 فروری کو طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔