سپریم کورٹ نے کورنگی روڈ پر واقع 35 سے زائد شادی ہالوں کو گرانے کا حکم دے دیا کیونکہ یہ شادی ہالز رہائشی مقاصد کے لیے الاٹ کی گئی زمین پر تعمیر کیے گئے ہیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ نے کورنگی کراسنگ کے قریب واقع شادی ہالوں کے مالکان کی جانب سے سپریم کورٹ کے سابقہ حکم کے خلاف دائر کی گئی دو درخواستوں کو مسترد کردیا اور فیصلہ دیا کہ زمین کو اس کے اصل رہائشی استعمال میں واپس لانا لازمی ہے۔
گزشتہ سال اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل تین رکنی بینچ نے درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ شادی ہال رہائشی پلاٹوں اور قبضہ کی گئی زمین پر بنائے گئے تھے اور ان کو عدالت عظمیٰ کے سابقہ احکامات کے مطابق مسمار کیا جانا چاہیے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ درخواست گزار مین کورنگی روڈ پر واقع شادی ہال کے مالک تھے اور انہیں یہ زمین مبینہ طور پر دارالسلام کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی اور لکھنؤ ہاؤسنگ سوسائٹی کورنگی نے الاٹ کی تھی۔
اکتوبر 2020 میں مالکان کو جنہوں نے زمین کے حقیقی خریدار ہونے کا دعویٰ کیا ہے انہیں شادی ہالوں کو خالی کرنے کا ایک نوٹس موصول ہوا کیونکہ یہ غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کی انتظامی کمیٹی کی سربراہی اس وقت کے چیف جسٹس نے 17 اکتوبر 2020 کو ہونے والے اپنے اجلاس میں کمشنر کو غیر قانونی شادی ہالوں کو گرانے کی ہدایت کی تھی اور اس کے بعد درخواست گزاروں نے ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا اور بعد میں عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ انتظامی کمیٹی کی ہدایات نئی نہیں ہیں بلکہ وہ ہی ہیں جو سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کی جانب سے 2010 میں دائر کی گئی درخواست میں عدالت عظمیٰ کے سابقہ حکم کے نفاذ اور عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے جاری کی گئی تھیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ قانون میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اس عدالت کو متعلقہ اداروں اور کام کرنے والے محکموں کے ساتھ انتظامی اجلاس منعقد کرنے سے روکے تا کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ عوامی مفاد میں منظور کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں کے وکیل کے دلائل کے حوالے سے عدالت کے علم میں ایسی کوئی بات نہیں لائی گئی جس سے یہ ثابت ہو کہ انتظامی کمیٹی کا اجلاس کسی طرح سے غلط تھا یا جو ہدایات جاری کی گئی تھیں وہ جاری نہیں کی جا سکتی تھیں۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں نوٹ لکھا ہے کہ تسلیم شدہ طور پر، درخواست گزاروں کی جانب سے زیر بحث زمین رہائشی نوعیت کی تھی اور درخواست گزاروں نے صرف یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے شادی ہالوں کی تعمیر سے قبل ہاؤسنگ سوسائٹی اور اتھارٹیز سے ضروری اجازتیں حاصل کی تھیں اور انہوں نے زمین کو رہائشی استعمال سے تبدیل کر کے اس پر شادی ہالز تعمیر کرنے کے لیے بڑی رقم ادا کی تھی۔
فیصلے میں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہیں اپنی جائیدادوں کے حوالے سے ریگولرائزیشن کے حوالے سے کوئی خط موصول نہیں ہوا جس میں کہا گیا ہو کہ زمین کو شادی ہالز کے طور پر ریگولرائز کیا گیا ہے یا ان کی رہائشی زمین کو کمرشل زمین میں تبدیل کیا گیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تسلیم شدہ طور پر درخواست گزاروں کے پاس ریگولرائزیشن کے بارے میں کوئی دستاویزات نہیں تھیں اور ریکارڈ سے ایسا کچھ بھی نہیں دکھایا گیا جس سے یہ پتا کیا جا سکے کہ ریگولرائزیشن لیٹر نہ ملنے کے بارے میں کسی بھی اتھارٹی کو کوئی شکایت کی گئی تھی۔
فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ تجارتی اور معاشی مفادات کے لیے پلاٹ کے الاٹی مالکان نے اپنے رسک پر جلد بازی میں غیر قانونی اسٹرکچر کی تعمیر کی اور اب رہائشی پلاٹوں پر شادی ہالز بنا کر سوسائٹی سے دباؤ ڈالوا کر تحفظ حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں ریمارکس دیے ہیں کہ اصل میں درخواست دہندگان پاس ان کی زمین کے ریگولرائزیشن لیٹر نہیں تھے، ہمارے لیے یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ شادی ہال رہائشی پلاٹوں پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے اور انہیں مسمار ہونا چاہیے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ جج اس دلیل سے قائل ہونے سے قاصر تھے کہ درخواستیں جمع ہونے اور کچھ فیس جمع کرنے کے بعد زمین خود کار طریقے سے ریگولرائز ہو گئی تھی۔