فرانسیسی حکومت نے فرانس میں اسلام کو نئی شکل دینے اور اسے انتہا پسندی سے علیحدہ کرنے کی کوششوں کے تحت مسلم کمیونٹی کی رہنمائی کے لیے مذہبی علما اور عام مرد و خواتین پر مشتمل ایک نیا ادارہ تشکیل دیا ہے۔
نجی اخبار میں شائع ہونے والی ‘اے پی’ کی رپورٹ کے مطابق کے مطابق گزشتہ برسوں میں فرانس پر مسلم انتہاپسندوں کے خوں ریز حملوں، شام میں جہادیوں کے ساتھ لڑنے کے لیے جانے والے سیکڑوں شہریوں اور اب افریقہ میں ہزاروں فرانسیسی فوجیوں کی شدت پسندوں سے جاری لڑائی کے ہوتے ہوئے چند افراد ہی اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے کہ انتہاپسندی ایک خطرہ ہے۔
تاہم ناقدین اسے اپریل کے صدارتی انتخابات سے قبل دائیں بازو کے ووٹرز کو صدر ایمانوئل میکرون کی سنٹرسٹ پارٹی کی جانب راغب کرنے کی سیاسی چال کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔
’فورم آف اسلام ان فرانس‘ کے نام سے یہ نیا ادارہ فرانسیسی وزارت داخلہ کی جانب سے متعارف کروایا گیا ہے۔
اس ادارے کے قیام کی حمایت میں لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ فرانس اور اس کے 50 لاکھ مسلمانوں کو محفوظ اور غیر ملکی اثر و رسوخ سے محفوظ رکھے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ فرانس میں مسلمان عوامی زندگی میں سیکولرازم پر عمل پیرا ہوں جو کہ فرانس کی پسندیدہ روایت ہے۔
ادارے کے قیام کے ناقدین میں بہت سے مسلمان بھی شامل ہیں جو مذہب کو اپنی فرانسیسی شناخت کا حصہ سمجھتے ہیں۔
ان کا مؤقف ہے کہ حکومت کا یہ تازہ اقدام ادارہ جاتی امتیازی عمل کا ایک اور قدم ہے جو پوری کمیونٹی کو چند لوگوں کے پرتشدد حملوں کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور ان کی عوامی زندگی میں ایک اور رکاوٹ بنتا ہے۔
اس نئے ادارے میں امام، سول سوسائٹی کی بااثر شخصیات، ممتاز دانشور اور کاروباری رہنما شامل ہوں گے۔
فرانسیسی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس کے تمام اراکین حکومت کی جانب سے منتخب کیے گئے ہیں اور اس کے اراکین کا کم از کم ایک چوتھائی حصہ خواتین پر مشتمل ہوگا۔
یہ ادارہ فرانسیسی کونسل آف مسلم فیتھ نامی گروپ کی جگہ لے گا جو 2003 میں سابق صدر نکولس سرکوزی نے قائم کیا تھا جو اس وقت کے وزیر داخلہ تھے، اس کونسل نے حکومت اور مذہبی رہنماؤں کے درمیان مکالمے کے لیے کام کیا۔
اس کونسل کو ایمانوئل میکرون کی حکومت رواں ماہ تحلیل کر رہی ہے کیونکہ وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمینین کے مطابق یہ کونسل اب مسلم کمیونٹی اور فرانسیسی معاشرے میں اپنا مطلوبہ کردار ادا نہیں کر رہی کیونکہ یہ حالیہ برسوں میں ہونے والے ان حملوں کا شکار رہی جس میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔
جیرالڈ ڈرمینین نے روزنامہ ’لی پیرسین‘ کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ہم اسلام پر (غیر ملکی اثر و رسوخ) کو ختم کر کے ایک انقلاب کا آغاز کرنا چاہتے ہیں، اسلام فرانس میں غیر ملکیوں کا مذہب نہیں ہے بلکہ ایک فرانسیسی مذہب ہے جسےغیر ملکی پیسے یا بیرون ملک موجود کسی بھی اتھارٹی پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔
اس منصوبےمیں ایمانوئل میکرون نے ترکی، مراکش یا الجیریا سے اماموں کو لانے کی بجائے فرانس میں انہیں تربیت دینے جیسے اقدامات کا تصور پیش کیا ہے جسے مسلم کمیونٹی میں بہت سے لوگوں کی جانب سے تائید حاصل ہے۔
اس منصوبے کے حوالے سے مسلمانوں کی رائے تقسیم ہے، جمعہ کی نماز کے لیے پیرس کی گرینڈ مسجد آنے والے کچھ مسلمانوں نے محتاط انداز میں اس خیال کا خیر مقدم کیا۔
تاہم کچھ مسلمانوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کے عقیدے پر قابو پانے کی کوشش میں یہ معاملہ بہت آگے بڑھتا جا رہا ہے، یا یوں کہہ لیں کہ حکومت نے اسلامی اداروں کو علیحدہ کر دیا ہے لیکن وہ عیسائی اداروں میں ایسی تبدیلیاں تجویز کرنے کی ہمت نہیں کریں گے۔
پیرس سے تعلق رکھنے والے 51 سالہ حمود بن بوزید ایمانوئل میکرون کے اس منصوبے اور وسیع معاشرے کا تنوع دکھانے کے لیے مسلم کمیونٹی کی مختلف آوازوں کو اس میں شامل کرنے کے لیے ان کی کوشش کے حوالے سے پر امید ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مذہبی علما کے ارکان فرانس کے ہر مسلمان شہری کی نمائندگی نہیں کرتے۔
حمود بن بوزید نے کہا کہ ہم ایک سیکولر ملک میں رہتے ہیں تو کیوں نہ اس فورم کو وسعت دی جائے اور فرانس میں دیگر بہت سے مسلمانوں کو بھی آواز فراہم کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں چاہوں گا کہ مسلمانوں کو اس ملک میں ایک شہری کے طور پر سنا جائے، مسلمان کے طور پر نہیں بلکہ مکمل شہریوں کے طور پر سنا جائے۔‘
شناخت کے لیے پولیس کی جانب سے علیحدہ کیے جانے سے لے کر ملازمت کی تلاش میں امتیازی سلوک تک فرانس میں مسلمانوں نے طویل عرصے سے روزمرہ زندگی میں شرمناک رویوں کا سامنا ہونے کی شکایت کی ہے۔
جب بھی غیر ملکی حملہ آوروں یا فرانسیسی نژاد نوجوانوں کے ہاتھوںانتہا پسندانہ کاروائی عمل میں آتی ہے تو فرانس کے مسلمان شک اور اس کی مذمت کرنے کے لیے دباؤ میں آجاتے ہیں۔
اسلام فرانس کا دوسرا مذہب ہے جس میں کوئی ایک رہنما نہیں ہے اور متنوع نمائندگی موجود ہے، اعتدال پسند اور سلفیوں سمیت مذہب کی سخت گیر تشریح کرنے والے اور بنیاد پرست افراد بھی موجود ہیں۔