پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے فوجداری انصاف کے نظام میں تجویز کردہ اصلاحات وفاقی حکومت اور وکلا برادری کے درمیان تنازع بن گئی ہیں، دونوں فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے لیے سخت بیانات جاری کیے گئے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت قانون کی جانب سے مجوزہ ترامیم کو چند روز قبل وفاقی کابینہ کی جانب سے منظوری دی گئی ہے، اس میں کوڈ آف کرمنل پراسیجر (سی آر پی سی)، قانون شہادت، پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) اور دیگر متعلقہ قوانین میں ترامیم شامل ہیں جس کے تحت کرمنل ٹرائلز کی تکمیل کے لیے 9 مہینے کی حد طے کی گئی ہے، پلی بارگین کا نظام متعارف کروایا گیا ہے، اور تفتیشی عمل میں جدید آلات اور ٹیکنالوجی کے استعمال کی تجویز دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) نے فوجداری قانون میں ان اصلاحات کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا ہے کہ یہ ترامیم وزارت قانون کی جانب سے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر پیش کردی گئی تھیں۔
ایس سی بی اے کے صدر محمد احسن بھون نے ایک بیان میں وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف فروغ نسیم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک بار پھر قانون کے بارے میں کم علمی اور اپنی نااہلی کا مظاہرہ کیا اور اس سے ان کی ٹیم کی صلاحیت کا فقدان بھی ظاہر ہوا۔
انہوں نے قانونی اصلاحات کو مزید مؤثر، کارآمد اور فائدہ مند بنانے کے لیے وسیع بنیادوں پر مشاورت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
وفاقی حکومت نے ایس سی بی اے کے مؤقف کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فوجداری اصلاحات سے متعلق قانون سازی کا مکمل مسودہ پاکستان بار کونسل، تمام صوبائی بار کونسلز، ایس سی بی اے اور تمام ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا، اور تمام اداروں کو اپنی رائے دینے کے لیے مدعو بھی کیا گیا تھا۔
وزیر قانون کا کہنا ہے کہ آج تک ان تنظیموں میں سے کسی نے اپنی کوئی رائے نہیں دی، قانون کے بنیادی اصول کے مطابق اس معاملے پر خاموشی کا مطلب ہے کہ ان کے پاس اس میں اضافے کے لیے کچھ نہیں اور وہ دستاویز سے مطمئن ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے مطابق مجوزہ اصلاحات کا مقصد کمزور طبقے خاص طور پر خواتین اور بچوں کو انصاف تک فوری اور آسان رسائی فراہم کرنا ہے، جو لوگ ان اصلاحات کی مخالفت کر رہے ہیں وہ پاکستان کے لوگوں خصوصاً معاشرے کے کمزور طبقات کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ نام نہاد ناقدین یا تو نااہل ہیں یا اپنے ہی ملک کے ساتھ ایماندار نہیں، یہ لوگ فوجداری انصاف کے موجودہ غیر مؤثر نظام کو اس کی موجودہ شکل میں جاری رکھنے کی خواہش کر کے اسٹیٹس-کو کی حمایت کر رہے ہیں جہاں وہ آسانی سے قانونی چارہ جوئی کرنے والوں کے ساتھ جوڑ توڑ اور ان کی قسمت کے فیصلے کرسکتے ہیں۔
وزارت قانون کا دعویٰ ہے کہ یہ مجوزہ اصلاحات سماجی یا طبقاتی فرق سے قطع نظر انصاف تک سب کی برابر رسائی کو یقینی بنائیں گی۔
مجوزہ اصلاحات کے نمایاں نکات
مجوزہ مسودے کے تحت وزارت قانون نے فوجداری مقدمات کی سماعت کے لیے 9 ماہ کی ڈیڈ لائن تجویز کی ہے، ٹرائل کورٹ کے لیے یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ ڈیڈ لائن پر پورا نہ اترنے کی صورت میں ہائی کورٹ کو وضاحت پیش کرے۔
فضول شکایات پر 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کرنے کی تجویز بھی دی گئی اور عدالتی نظام میں تعطل کو کم کرنے کے لیے پلی بارگینز کا تصور متعارف کرایا گیا ہے تاہم یہ اصول موت، عمر قید یا سات سال سے زائد کی سزا والے جرائم پر لاگو نہیں ہوگا، اسے خواتین، بچوں اور سماجی و اقتصادی مسائل سے متعلق جرائم میں بھی شامل نہیں کیا جا سکے گا۔
مسودے میں تجویز کیا گیا ہے کہ ناقابل قبول شواہد کے معاملات کے علاوہ تمام گواہیاں آڈیو اور ویڈیو دونوں شکلوں میں ٹرائل جج کی مداخلت کے بغیر ریکارڈ کی جائیں گی۔
گواہی کو انگریزی ترجمے کے علاوہ اس زبان میں ہی لفظ بہ لفظ ریکارڈ کیا جائے گا جس میں اسے بیان کیا گیا ہو۔
کئی دہائیوں پرانے پولیس نظام کی تشکیل نو کرتے ہوئے اس میں پولیس اسٹیشن کے انچارج افسر کی تعریف کو نئے سرے سے متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو کم از کم بیچلر ڈگری کا حامل سب انسپکٹر ہونا چاہیے۔
مقمدمات کے زیادہ بوجھ والے بڑے تھانوں میں ایس ایچ او کو کم از کم اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے عہدے کا ہونا چاہیے۔
نئی تجویز کے تحت اگر کوئی ملزم فرار ہوتا ہے تو اس کا شناختی کارڈ اور نادرا کی جانب سے جاری کردہ دیگر دستاویزات، پاسپورٹ، بینک کارڈ اور بینک اکاؤنٹس بلاک کیے جاسکتے ہیں لیکن اگر کوئی اشتہاری مجرم عدالت میں پیش ہوجاتا ہے تو عدالت اس کی دستاویزات کو بحال کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
اس کے علاوہ تفتیش مکمل کرنے اور چالان کی مدت 15 سے بڑھا کر 45 دن کر دی گئی ہے۔
ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کیے جانے والے شواہد کے لیے تفصیلی پروٹوکولز بھی تجویز کیے گئے ہیں اور ویڈیو کانفرنسنگ کی جگہ کی منظوری عدالت سے لینے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
ویڈیو لنک کے ذریعے ثبوت ریکارڈ کرنے کا آپشن اندرون اور بیرون ملک دونوں جگہ موجود گواہوں کے لیے تجویز کیا گیا ہے، بیرون ملک گواہ کے لیے عدالت یا جج کی جانب سے ایک کمیشن کسی بھی ایسی جگہ بیان ریکارڈ کرے گا جہاں پاکستان کے لیے انتظامات ممکن ہونگے، اور جہاں ایسے انتطامات ممکن نہ ہوں وہاں یہ کمیشن اپنی خدمات کے لیے پاکستانی سفارت خانے یا ہائی کمیشن سے رجوع کرے گا۔