کے ٹو پاکستان کی سب سے بلند ترین چوٹی، جبکہ دنیا میں اسکا شمار دوسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ یہ پاکستان کی سیاحت میں بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاحوں کی بھی بڑی تعداد آتی ہے۔ لیکن افسوس وہاں آنے والے لوگ ہی اسکی
خوبصورتی میں داغ لگا رہے ہیں۔ستمبر 2022 میں ڈان نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق، پاکستان ہر سال 15 سے 20 ٹن ٹھوس فضلہ پیدا کرتا ہے جس میں سے 86 فیصد کے ٹو سے پیدا ہوتا ہے، ماہر ماحولیات نے کہا کہ اس اعداد و شمار میں پہاڑ پر موجود تمام کوڑا کرکٹ شامل نہیں ہے جو کہ ٹنز میں ہونا چاہیے۔پہاڑ پر موجود کچرے کی تصاویر شائع ہونے کے بعد، سنٹرل قراقرم نیشنل پارک کی ایک ٹیم نے اوپر چڑھائی کی اور 19 جولائی سے 18 اگست تک انھوں نے کے ٹو بیس کیمپ اور کیمپ فور کے درمیان 1610 کلو گرام کچرا جمع کیا۔ماہر ماحولیات ایس یاسر عباس رضوی نے بتایا کہ، پہاڑوں کو صاف ستھرا رکھنا ہر کوہ پیما کی انفرادی ذمہ داری ہے۔ یہ صرف اسلیئے نہیں ہے کہ اس سے کیمپ ناگوار لگتا ہے بلکہ یہ نازک برفانی ماحولیاتی نظام کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔قراقرم، خطرے سے دوچار جنگلی حیات اور بہت سی انسانی برادریوں کا گھر ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ بالٹورو، بیافو اور ہسپر گلیشیرز سے تقریباً 221 ملین باشندوں کے پورے ملک کو پینے کا پانی فراہم کرتا ہے۔اس سال کیمپ کی صورتحال زیادہ خراب تھی جس کی وجہ زیادہ درجہ حرارت تھا کیونکہ جب برف کے ڈھکنے کا کچھ حصہ پگھلا تو برسوں سے جمع کچرا بے نقاب ہوگیا۔
Load/Hide Comments