بھارت کے شہر ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا افتتاح کردیا گیا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے انتہاپسند گروپ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ناتھ کے ہمراہ پوجا پاٹ کی اور پھر خطاب بھی کیا۔
نریندرمودی نے 50 میٹر لمبے ہندو دیوتا کی مورتی کی نقاب کشائی بھی کی۔
افتتاحی تقریب میں سیاستدانوں، اداکاروں اور کھلاڑیوں سمیت 7 ہزار افراد نے شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں
پاکستان کی بابری مسجدکی جگہ رام مندرکی تعمیرکی مذمت
بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمان ہونے والے محمد عامر کی پر اسرار موت
بابری مسجد کی شہادت نام نہاد جمہوری بھارت پر سیاہ دھبہ ہے: دفتر خارجہ
بھارتی سپریم کورٹ کا بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کا حکم
دوسری جانب اپوزیشن نے افتتاحی تقریب کو مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کا سیاسی شو قرار دیا جبکہ کانگریس رہنماؤں نے تقریب میں شرکت سے معذرت کی۔
تامل ناڈو حکومت نے رام مندرکی افتتاحی تقریب لائیو نہ دکھانےکاحکم دیا اور مندروں میں رام پوجا پر پابندی عائد کی۔
مغربی بنگال میں مذہبی ہم آہنگی کیلئے وزیراعلیٰ کی ریلی
اُدھر مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے کولکتہ میں مذہبی ہم آہنگی کیلئے ریلی نکالی جس میں تمام مذاہب کو ماننے والے افراد نے شرکت کی۔
ممتا بینرجی نے ریلی کے راستے میں آنے والی مساجد کا بھی دورہ کیا۔
خیال رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے 2019 میں بابری مسجد کی جگہ ہندوؤں کے حوالے کرنے کا متنازع فیصلہ دیا تھا۔
پاکستان کی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی مذمت
پاکستان نے ایودھیا میں منہدم بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور تقدیس کی مذمت کی۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو انتہا پسند گروہ نے شہیدکیا، بھارتی اعلیٰ عدلیہ نے اس گھناؤنے کام میں ملوث جرائم پیشہ افراد کو بری کیا، مندر کی تعمیر سیاسی، معاشی وسماجی طور پر مسلمانوں کی پسماندگی بڑھانے کی کوشش کا حصہ ہے۔
بابری مسجد کا پس منظر
1528 میں مغل دور حکومت میں بھارت کے موجودہ شہر ایودھیا میں بابری مسجد تعمیر کی گئی جس کے حوالے سے ہندو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مقام پر رام کا جنم ہوا تھا اور یہاں مسجد سے قبل مندر تھا۔
برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کے لیے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔
بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی نے 1980 میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک شروع کی تھی۔
1992 میں ہندو انتہا پسند پورے بھارت سے ایودھیا میں جمع ہوئے اور ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں 6 دسمبر کو سولہویں صدی کی یادگار بابری مسجد کو شہید کر دیا جب کہ اس دوران 2 ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔
حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کو متنازع جگہ قرار دیتے ہوئے دروازوں کو تالے لگا دیے، جس کے بعد معاملے کے حل کے لیےکئی مذاکراتی دور ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019کو بابری مسجد کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے مسجد ہندوؤں کے حوالے کردی اور مرکزی حکومت ٹرسٹ قائم کرکے مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا حکم دے دیا جب کہ عدالت نے مسجد کے لیے مسلمانوں کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا بھی حکم دیا۔