رواں برس نو اور 10 اپریل کی درمیانی شب عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے سے قبل پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے اراکین ایک بار قومی اسمبلی ہال سے نکلے تو آج تک دوبارہ وہاں واپس نہیں گئے۔
اس دوران 11 اپریل کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد ایک ہفتے سے زائد کا وقت لگا کر شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے کابینہ کےابتدائی 37 ارکان کا انتخاب کیا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کتنے بلز پیش کیے گئے؟
13 اگست 2018 کو اراکین اسمبلی کی حلف برداری کے بعد اب تک حکومتی بنچز کی جانب سے 138 قوانین کے مسودے پیش کیے جا چکے ہیں، جن میں اگلے برس کے اخراجات کے لیے فنانس بِل بھی شامل ہیں۔
ریکارڈ کے مطابق تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کے بعد اب تک اتحادی حکومت نے 16 قانونی مسودے قومی اسمبلی میں پیش کیے جن میں بجٹ 2022۔23 بھی شامل ہے۔
حکومتی بنچز کی جانب سے پیش کیے گئے بلز کی نسبت پرائیوٹ ممبر بِلز کی تعداد دگنے سے بھی زیادہ ہے۔
موجودہ قومی اسمبلی میں اب تک پرائیویٹ ممبران کی جانب سے 292 قوانین منظوری کے لیے پیش کیے جا چکے ہیں، جن میں حکومتی تبدیلی کے بعد پیش کیے گئے بلز کی تعداد 37 ہے۔
قومی اسمبلی نے آج تک 167 بلز منظوری کے بعد سینیٹ میں بھیجے جن میں حکومت کی تبدیلی کے بعد منظور کیے گئے 41 بلز بھی شامل ہیں۔ سینیٹ میں موجودہ حکومت قائم ہونے کے بعد اب تک پرائیویٹ ممبران کی جانب سے 29 بلز پیش کیے جا چکے ہیں۔ جب کہ قومی اسمبلی کی جانب سے سینیٹ کو 23 حکومتی بلز بھی بھیجے گئے۔
موجودہ قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے 430 بلز میں سے 263 قومی اسمبلی تک ہی محدود رہے۔ جب کہ موجودہ دور میں 53 بلز میں سے 41 تحریک انصاف کی غیرموجودگی میں باآسانی منظور ہو گئے۔
پارلیمان کے ایوان بالا میں موجودہ دور میں قومی اسمبلی سے 23 اور پرائیویٹ ممبران کی جانب سے 29 بلز پیش کیے گئے۔
سینیٹ آف پاکستان نے 29 بلز منظوری کے بعد صدر مملکت کو بھیجے جن میں 14 حکومتی اور 15 پرائیویٹ ممبر بل شامل تھے۔
پارلیمانی امور کے ماہر اور پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کے مطابق جمہوری نظام میں اہم ہے کہ فیصلہ سازی میں سب سے مشاورت ہو۔ حکومت اور اپوزیشن کی رائے سے بننے والے قوانین جمہوری نظام کو بہترین شکل میں پہنچانے میں مدد دیتے ہیں۔ لیکن اگر جمہوری نظام میں فیصلے صرف کثرت رائے کی بنیاد پر ہو رہے ہوں (ان میں مؤثر اپوزیشن کا عمل دخل نہ ہو) تو یہ آئین و قانون کے خلاف تو نہیں، البتہ جمہوریت کی روح کے خلاف ضرور ہے۔
ایکٹ آف پارلیمنٹ
ریکارڈ کے مطابق موجودہ قومی اسمبلی نے 13 اگست 2018 سے اب تک 133 بلز کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سےمنظوری کے بعد اب تک 21 مختلف بلز ایکٹ آف پارلیمنٹ کا حصہ بن چکے ہیں۔
ان 21 قوانین میں فنانس ایکٹ 2022 (بجٹ برائے مالی سال 2022 ۔23) بھی شامل ہے، جسے صدر مملکت نے 30 جون کو منظور کیا۔
مزید برآں ان قوانین میں جوائنٹ سیشن کے ذریعے پاس ہونے والے قومی احتساب آرڈیننس ترمیمی ایکٹ اور انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں، انٹرنیٹ ووٹنگ جیسی شرائط ختم کرنے کی قانون سازی بھی شامل ہے۔
قانون سازی جو صدر عارف علوی نے رکوا دی
26 ،27 مئی کو قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ سے منظوری کے بعد صدر عارف علوی کے پاس الیکڑانک ووٹنگ مشینوں، انٹرنیٹ ووٹنگ کے استعمال اور نیب کے وسیع اختیارات میں کمی کے بلز بھیجے گئے۔ جنہیں صدر نے جون کے آغاز میں نظرثانی کی ہدایت کے ساتھ واپس بھیجا۔ جس کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر قوانین کی منظوری لی گئی۔ ان 2 قوانین کے بعد میڈیا اور بیانات کی حد تک تو صدر اور وفاقی حکومت میں اختلافات ہوئے مگر دونوں ایوانوں سے منظور ہونے والے قوانین کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔
منظور کیے گیے اہم قوانین
مبصرین کے مطابق اتحادی حکومت کی اولین ترجیح تھی کہ سب سے پہلےقومی احتساب بیورو اورانتخابات کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین جیسی شرائط کے قوانین تبدیل کیے جائیں۔ اوور سیز پاکستانیوں کو انٹرنیٹ ووٹنگ کے ذریعے ووٹ کا حق دینے کے لیے کی گئی قانون سازی کو موجودہ حکومت نے جلد بازی اور قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔احتساب کے قوانین میں موجودہ حکومت نے ایکٹ آف پارلیمنٹ کی منظوری کے ذریعے 2 مرتبہ تبدیلی کی۔
احتساب اور انتخابی قوانین میں تبدیلی کے علاوہ موجودہ حکومت کے دور میں پہلی بار ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ڈیتھ (روک تھام اور سزا) بل، بھی 2022منظور ہوا۔ جس کے بعد زیر حراست ملزمان پر تشدد کو جرم تصور کیا جائے گا۔ اور دوران حراست تشدد کرنے والوں کو تعزیزات پاکستان کے تحت سزا دی جا سکے گی۔
اس کے علاوہ اسلام آباد کے گھروں میں کام کاج کرنے والے ملازمین کے حقوق کو قانونی تحفظ دینے کیلئے قوانین بھی پارلیمان نے منظور کیے۔
سینیٹ، قومی اسمبلی اور کمیٹیوں میں زیر التوا اہم بل
سینئر قانون دان رضا ربانی کی جانب سے جمع کرایا گیا ایک مسودہ اس وقت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور میں موجود ہے، جس کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کی کسی بھی جرم میں گرفتاری سے قبل سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کی اجازت لینا ضروری ہے۔
اسی طرح آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں ترمیم کے لیے سینیٹر پلوشہ مہمد زئی خان کی تجاویز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں موجود ہیں۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے قانون میں ترمیم کے لیے سینیٹ کی تجاویز قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں موجود ہیں۔
اقومی اسمبلی میں مولانا اکبر چترالی کی طرف سے جمع کرائی گئی ترامیم بھی موجود ہیں، جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ ایک امیدوار بیک وقت 2 نشستوں سے زائد پر انتخابات نہ لڑ سکے۔
رکن قومی اسمبلی نور عالم خان کی جانب سے جمع کرایا گیا بل بھی ابھی اسمبلی میں موجود ہے جس میں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیوں سمیت سینیٹ میں مخصوص نشستیں تجویز کی گئی ہیں۔ جب کہ معذور افراد کی نمائندگی کے لیے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستوں کی تجویز بھی زیرِغور ہے۔
پارلیمانی نظام میں تحریک انصاف کی عدم شرکت کے حوالے سےتجزیہ کار اور ٹی وی میزبان عارفہ نور کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کا یہ اپنا فیصلہ ہے جو انہوں نے اسمبلی میں اپوزیشن کی خالی جگہ چھوڑ دی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حکمران اتحاد نے ان کے نہ تو استغفے منظور کیے اور نہ ہی انہیں پارلیمان میں دوبارہ واپس لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی۔
’گزشتہ دور میں موجودہ حکومتی اتحاد کئی حوالوں سے تحریک انصاف حکومت سے مطالبہ کرتا تھا کہ یہ کورونا پالیسی اور کشمیر کے مسئلے پر ان سے اسمبلی میں بحث کریں۔ لیکن موجودہ دور میں سیلاب پر اسمبلی میں کتنے اجلاس ہوئے؟ اگر تحریک انصاف اسمبلی کو اہمیت نہیں دیتی تھی، وزیراعظم اسمبلی میں نہیں آتے تھے تو اب موجودہ حکومت بھی اس حوالے سے اتنی ہی غیرسنجیدہ ہے۔ ان کے مطابق اگر اپوزیشن لیڈر نے حکومتی جماعت سے ہی ٹکٹ لینا ہے تو وہ کیا اپوزیشن کریں گے۔‘
عارفہ نور کے مطابق مضبوط اپوزیشن کی غیرموجودگی میں ہونے والی قانون سازی پر تنازع اپنی جگہ، اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت پارلیمان کو اہمیت دینے کو ہی تیار نہیں۔