پی ٹی آئی کے علاوہ، تمام جماعتوں کی انتخابی قوانین میں تبدیلی کی مخالفت

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے علاوہ، حکومتی اتحادیوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے ساتھ ہونے والے مشاورتی اجلاس میں اہم عوامی عہدیداروں کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے لیے انتخابی قانون میں حالیہ تبدیلیوں کی مخالفت کی ہے۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں تقریباً 17 سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی، اجلاس کے دوران آئندہ عام انتخابات کے لیے ضابطہ اخلاق کے مسودے پر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے رائے طلب کی گئی تھی۔

باخبر ذرائع نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ زیادہ تر جماعتوں نے آرڈیننس کے ذریعے انتخابات کے ضابطہ اخلاق میں حالیہ تبدیلی کی مخالفت کی، حکمران جماعت پی ٹی آئی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ اہم عوامی عہدے داروں کو انتخابی مہم میں حصہ لینے سے روکا جانا چاہیے۔

اجلاس میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر ، فرحت اللہ بابر اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے زاہد حامد اور احسن اقبال اجلاس میں شرکت کرنے والے رہنماؤں میں نمایاں تھے۔

اجلاس میں شریک نمائندوں سے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے الیکشنز ایکٹ میں حال ہی میں شامل کی گئی دفعہ 181-اے پر رائے طلب کی گئی تھی، دفعہ 181-اے پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلی یا لوکل گورنمنٹ کے منتخب رکن سمیت آئین یا کسی دوسرے قانون کے تحت کسی دوسرے عوامی عہدے پر فائز ممبر کو انتخابی مہم کے دوران کسی بھی علاقے یا حلقے میں عوامی جلسے کا دورہ کرنے یا خطاب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

پی ٹی آئی کے نمائندوں کا اجلاس کے دوران کہنا تھا کہ ای سی پی صدارتی آرڈیننس کو مدنظر رکھتے ہوئے ضابطہ اخلاق کو ریگولیٹ کرے، انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت کسی بھی شہری سے نقل و حرکت کی آزادی چھینی نہیں جا سکتی۔

تاہم، زیادہ تر دیگر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ قانون سازوں کو ان علاقوں کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے جہاں انتخابات منعقد ہونے ہیں اور وہاں انتخابی شیڈول کا اعلان کیا جا چکا ہو۔

مشاورتی اجلاس کے دوران کچھ چھوٹی جماعتوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اسمبلیوں کے عام ارکان کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کی اجازت دی جاسکتی ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت کے نمائندوں نے آرڈیننس جاری کیے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 233 کے تحت حکومت کے پاس آرڈیننس کے ذریعے اس میں ترمیم کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہیں، ضابطہ اخلاق سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ای سی پی کی جانب سے وضع کیا جانا چاہیے۔

مشاورتی اجلاس کے دوران زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے صدر، وزیراعظم، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین، قومی اسمبلی کے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وفاقی اور صوبائی کابینہ اراکین سمیت اہم عوامی عہدوں کے حامل افراد کی انتخابی مہم میں شرکت پر مکمل پابندی بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔

ان سیاسی جماعتوں کا مؤقف تھا کہ متنازع آرڈیننس آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوگا۔

اجلاس میں شریک ایک نمائندے کا چیف الیکشن کمشنر کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ای سی پی پہلے ہی اٹارنی جنرل آف پاکستان کو متنازع آرڈیننس پر اپنے تحفظات سے آگاہ کرچکا ہے۔

مشاورتی سرگرمیاں
دریں اثنا، چیف الیکشن کمشنر نے خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ای سی پی نے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر قومی اور صوبائی سطح پر مشاورتی سرگرمیوں کا اہتمام کیا، مشاورتی سرگرمیوں کا مقصد انتخابی عمل میں خواتین، معذور افراد، ٹرانس جینڈر افراد اور اقلیتوں کے کردار کو مضبوط بنانے کے لیے قیمتی تجاویز حاصل کرنا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنا آئینی اور قانونی کردار مناسب طریقے سے ادا کرتا رہے گا، انہوں نے کہا کہ اس طرح کی تقریبات اور مشاورتی اجلاسوں کی تمام سفارشات سول سوسائٹی، خواتین اور متعلقہ محکموں کی جانب سے جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کے لیے ای سی پی کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت، ای سی پی ملک میں آزادانہ، غیر جانب دارانہ ، منصفانہ، اور شفاف انتخابات کے انعقاد کا ذمہ دار ہے، انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 25(2) کے تحت یہ بھی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی عمل میں معاشرے کے تمام طبقات کی بلا خوف و خطر ، برابری و مساوات کی بنیاد پر شرکت کو یقینی بنائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں