سابق وزیر خارجہ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں ترامیم ایک خاص طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہیں جس کے خلاف ہم عدالت سے رجوع کریں گے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم مختلف جماعتوں پر مشتمل ہے، ان کا نصب العین بھی مختلف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے مل کر ملک کی اینٹی کرپشن مہم کو نیب ترامیم میں دفن کردیا ہے، درحقیقت انہوں نے اپنے آپ کو این آر او ٹو دیا ہے، جب ہم ایف اے ٹی ایف کی قانون سازی کر رہے تھے، اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے نمائندے بھی وہاں موجود تھے۔
بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے قانون سازی کے بجائے ایک مسودہ ہمارے ہاتھ میں تھمایا جس میں نیب قوانین میں ترامیم کی تجویز دی گئی تھی، اس وقت ان کی جانب سے 34 سے 35 ترامیم پیش کی گئی تھیں اور شرط عائد کی گئی تھی کہ وہ اس پر پیش رفت کے بعد ایف اے ٹی ایف کی قانون سازی میں تعاون بھی کریں گے اور گفتگو بھی کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جو قوانین میں ترامیم انہوں نے اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروائی ہیں اس میں 24 سے زائد ترامیم وہی ہیں جو ہمیں سونپی گئی تھیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عمران خان سے این آر او نہ ملنے پر یکجاں ہوئے اور ترامیم پیش کیں۔
’نیب قوانین میں تبدیلی سے ایک خاص طبقہ مستفید ہوا ہے‘
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ان ترامیم سے ایک خاص امیر طبقہ مستفید ہوگا جس میں ملک کو لوٹنے والے اور اہم سیاسی شخصیات شامل ہیں، نیب کے قانون میں جو ترامیم کی گئی ہیں وہ کرپشن کے خلاف اقوام متحدہ کے قوانین سے متضاد ہیں اور ایف اے ٹی ایف کے قوانین سے بھی مطابقت نہیں رکھتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی استدعا ہے کہ سپریم کورٹ کو اس معاملے پر ازخود نوٹس لینا چاہیے اور یہ ہم اس لیے کہہ رہے کہ اسفند یار ولی کیس میں عدالت یہ کہہ چکی ہے کہ اگر نیب قوانین میں کوئی ترامیم کی جاتی ہیں تو وہ سپریم کورٹ کے علم میں لائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ قانون سازی ایک فقط اپنے مقصد کے لیے کی گئی ہے، اس پر تحریک انصاف کا ماننا ہے کہ اس ترامیم سے نیب کا محکمہ بے معنی ہوگیا ہے، نیب کو جو قانونی آزادانہ حیثیت حاصل تھی اب اس پر سمجھوتہ ہوگیا ہے اور ادارہ وفاقی حکومت کے تابع ہوگیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نیب کو اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ پنجاب اور ایف آئی اے بنانے کی کوشش کی ہے جو سرکاری حکومت کے تابع ہوتے ہیں، اس ترمیم کے بعد نیب کے کیسز متاثر ہوں گے، ان میں سے 80 فیصد کیسز احتساب عدالت سے دیگر عدالتوں کو منتقل ہوجائیں گے اور کچھ کیسز واپس نیب کو منتقل کردیے جائیں گے یہی ان کا مقصد تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کچھ ایسی شقوں میں تبدیلی کی ہے جو بینک کی لین دین سے متعلق ہیں، سیکشن 9، سب سیکشن اے 5 سے براہِ راست ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف کو فائدہ پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ سیکشن 14 میں جو ترمیم کی گئی ہے اس سے نواز شریف براہِ راست مستفید ہوں گے کیونکہ اس میں منی ٹریل کی ذمہ داری ختم کردی گئی ہے، یہ بات واضح ہے کہ یہ ترمیم کس کو مستفید کرنے کے لیے اور کس کی خواہش پر کی گئی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ انہوں نے بے نامی کی تعریف میں تبدیلی کردی ہے جس سے کیسز متاثر ہونے کا خدشہ ہے، باہر سے موصول کیے جانے والے شواہد نیب کیسز کے لیے کارآمد نہیں ہوں گے، اس ترمیم کے ذریعے غیر ملک میں موجود اثاثوں کو محفوظ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایس آر اوز سے متعلق تحقیقات کو ختم کردیا گیا ہے، چاہے ایس آر او بدنیتی پر ہی کیوں مبنی نہ ہو، علاوہ ازیں چیئرمین نیب کو گرفتاری کا اختیار تھا، لیکن اب قانون میں ایسی شرائط شامل کردی گئی ہیں کہ وہ بے اختیار ہوگئے ہیں اور کسی کو گرفتار نہیں کر سکتے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے قابل قانون میں درپیش مسائل کے حل کا اختیار صدر مملکت کو ہوتا تھا لیکن اب یہ اختیار وفاقی حکومت کو دے دیا گیا ہے اور وفاقی حکومت ان کی اپنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں تحریک انصاف نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ان ترامیم کو چیلنج کریں گے، عمران خان نے ہماری قانونی ٹیم کو ہدایت دے دی ہے کہ وہ چیلنج کریں۔
’بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لیا گیا ہے‘
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دوسری ترمیم تحریک انصاف کی جانب سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق تھی اس قانون میں ترمیم کی گئی ہے، کیونکہ یہ انہیں پسند نہیں آرہا ہے، ہماری نظر میں تین وجوہات تھیں جس کی وجہ سے ہم سمجھتے تھے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ووٹ کے حقدار کیوں ہیں۔
بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہماری معیشت میں بہت بڑے معاون ہیں اور وہ ہمارا اثاثہ ہیں، ان کی ترسیلات سے یہ ملک چل رہا ہے، پچھلے سال 32 ارب ڈالر ترسیلات تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حساب سے اگر انہیں عزت دی گئی تھی تو وہ ان کا حق تھا جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ان سے چھین لیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشہ ور ہیں، پالیسی کی تشکیل میں وہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، ہماری رائے تھی کہ جب انہیں اسٹیک ہولڈرز بنا دیا جائے گا تو پالیسی کی تشکیل بہتر ہوسکتی تھی اور اب بھی ہوسکتی ہے۔
سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا ایک مقصد یہ تھا کہ ان کی ایک نسل یہاں سے چلی گئی ہے، آنے والی نسلوں کو ان کے ملک سے دلچسپی لینے کے لیے کس طرح آمادہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ قوانین میں ترامیم کر کے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اس سوچ کو دفن کیا ہے کیونکہ ان کی رائے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی واضح اکثریت اور ان کا جھکاؤ پی ٹی آئی کی طرف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستان کے شہری خود مختار ہیں ان کا جھکاؤ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی طرف بھی ہوسکتا ہے لیکن قانون میں تبدیلی کر کے انہوں نے سب کا حق مار لیا ہے، ہم اس قانون میں ترمیم کو بھی چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’ای وی ایم کا تعارف حذف کرنے کا مقصد من پسند انتخابی نتائج حاصل کرنا ہے‘
انہوں نے کہا کہ قانون سازی میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے تعارف کو حذف کیا گیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے ای وی ایم کے تعارف کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ تعارف جسٹس ناصرالملک کے زیر قیادت جوڈیشل کمیشن کی تجویز پر کروایا گیا تھا، انہوں نے ہمارے اعتراضات سننے، لوگوں اور ماہرین کی رائے لینے کے بعد تعارف مرتب کیا اور قانون سازی کےلیے بھجوایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس تمام تر معاملے میں انہوں نے لوگوں کے کیسز اور شکایات کا موازنہ کیا جس میں بیشتر میں کہا گیا تھا کہ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد بیگز پہنچتے ہیں اور ریٹرننگ افسر دوبارہ گنتی شروع کرتے ہیں اس دوران گڑبڑ ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈسکہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے بھی یہی شکایات کیں، اس لیے ہم نے ایسا طریقہ کار رائج کروایا جس سے شفافیت بڑھتی ہیں اور وقت کم ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اس معاملے پر اعتراض اٹھایا گیا کہ ہمارے ملک کی آبادی ناخواندہ ہے، اگر بھارت کی جانب نظر دوڑائی جائے تو ہماری آبادی سے زیادہ ان کی آبادی ناخواندہ ہے، وہاں یہ نظام کامیابی سے رائج ہے تو یہاں کیوں نہیں ہوسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ نظام اس لیے ختم کیا گیا ہے کہ اپنے من پسند نتائج میں گنجائش مل سکے، 2018 میں قومی اور صوبائی اسمبلی سے انتخابات لڑ رہا تھا، اس وقت میں قومی اسمبلی سے جیت گیا جس کا غیر سرکاری نتیجہ 10 بجے موصول ہوا تھا، لیکن صوبائی اسمبلی سے ہار گیا اور اس کا نتیجہ تاخیر سے موصول ہوا تھا۔
انہوں نے کہا یہ بات واضح تھی کہ بیگز پہنچ گئے تھے اور مجھے ہرایا گیا، ایسے بہت سے کیسز ہیں پاکستان میں جس سے نمٹنے کے لیے ہم نے ای وی ایم متعارف کروائی تھی، تاکہ ٹیمپرنگ سے بچا جاسکے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں انتخابات میں من پسند نتائج کا رواج بن چکا ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 1970 کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے اس پر گلہ کیا گیا ہے، 2013 کے انتخابات کو آصف علی زرداری نے آر او الیکشن قرار دیا تھا اور اس کی وجہ یہ نظام تھا، جب تک عوام کے فیصلے قبول نہیں کیے جائیں گے ملک مستحکم نہیں ہوگا۔
’حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے‘
انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو آزادی مارچ کے دوران جو ہمارے کارکنوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا، یہ سب اپنی جگہ اسلام آباد میں شیلنگ کے چشم دید گواہ آپ خود ہیں، وکلا پر جو تشدد ہوا اس کی مثال نہیں ملتی۔
ان کا کہنا تھا کہ وکلا پر تشدد کرنے سے پولیس ڈرتی ہے لیکن انہیں ہدایات تھیں تشدد کرنے کی اس کی ویڈیوز موجود ہیں، بس سے وکیل اتر رہے ہیں انہیں تھپڑ مارے جارہے ہیں ان میں خواتین بھی شامل ہیں اور انہیں پولیس وین میں حوالات بھیجا رہا ہے۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں جس کی وجہ لاہور میں ہونے والا وکلا کنونشن ہے جس میں وکلا عمران خان کو مدعو کیا تھا، یہ ایک بے مثال کنونشن تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے انہوں نے کل بار کے لیے 20 کروڑ روپے کی گرانٹ منظور کی، آٹا مہنگا ہوگیا اس کی سبسڈی کی فکر نہیں ہے، خرید و فروخت کی سیاست ان کا وطیرہ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کور کمیٹی کے اجلاس میں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس ملک میں صاف شفاف انتخابات کے لیے ہماری جستجو جاری رہے گی۔