پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 کے سندھ طاس معاہدے پر اہم مذاکرات پیر (کل) سے شروع ہوگئے ہیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر مذاکرات اس وقت ہوئے ہیں جب بھارتی ریاست کیرالہ میں وقت سے پہلے مون سون پہنچنے کی مثبت خبریں آئی ہیں۔ پاکستانی وفد کی سربراہی انڈس واٹر کمشنر مہر علی شاہ کر رہے ہیں جبکہ بھارتی کی نمائندگی واٹر کمشنر اے کے پال کر رہے ہیں۔
پاکستانی وفد گزشتہ اتوار کو واہگہ اٹاری سرحد کے ذریعے مذاکرات میں شرکت کرنے کے لیے گیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ویون ٹی وی سے بات کرتے ہوئے پاکستانی وفد کے سربراہ مہر علی شاہ نے اس دورے کو معمول کا دورہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ گفتگو سندھ طاس معاہدے کی ذمہ داری ہے جس کو ہمیں معاہدے کے تحت پورا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ مذاکرات ایک مسلسل عمل ہے اس لیے یہ معنیٰ خیز انداز میں جاری رہنا چاہیے، اس راستے سے ہی ہم دو طرفہ معاملات کو حل کر سکتے ہیں اور یہ بھارت پر بھی انحصار کرتا ہے کہ وہ کس طرح جواب دیتا ہے۔
پاکستان نے مشترکہ دریاؤں کی اپ اسٹریم پر بھارتی ہائیڈل منصوبوں پر اعتراض کیا ہے جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ اس کے منصوبے معاہدے کے مطابق ہیں۔
پاکستان کا یہ دوسرا وفد ہے جس نے گزشتہ کچھ ہفتوں میں بھارت کا دورہ کیا ہے، رواں ماہ ایک پاکستانی وفد نے نئی دہلی میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائیزیشن، اور ریجنل اینٹی ٹیرر اسٹرکچر کی میٹنگ میں شرکت کی تھی۔
دو روزہ مذاکرات میں دونوں ممالک پانی کی تقسیم، سیلابی پانی کے بارے میں بروقت معلومات اور دیگر متعلقہ معاملات پرتبادلہ خیال کا امکان ہے۔
رواں برس مارچ میں بھارت وفد نے بات چیت کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا جس کی سربراہی واٹر کمشنر پی کے سکسینا کر رہے تجھے۔
مارچ میں ہونے والی بات چیت کے دوران بھارتی وفد نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اس کے تمام منصوبےسندھ طاس معاہدے کی دفعات کے مطابق ہیں اور اس مؤقف کی حمایت میں تکنیکی تفصیلات بھی فراہم کی گئی تھی۔
دونوں ممالک فضلیکا ڈرین کے معاملے پر بھی بات چیت کی تھی اور پاکستان نے یقین دلایا تھا کہ دریائے ستلج میں فضلیکا ڈرین کے بہاؤ کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔
1960 کے سندھ طاس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کا پانی غیر محدود استعمال کے لیے بھارت کو دیا جاتا ہے جب کہ تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان کو دیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بھارت کو یہ حق بھی ہے کہ وہ تین مغربی دریاؤں پر منصوبوں کے ذریعے بجلی پیدا کرے، ان منصوبوں کی ڈیزائن کے مخصوص معیار کے حوالے سے پاکستان 1960 کے معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں پر بھارتی ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں کے ڈیزائن پر اعتراضات اٹھا سکتا ہے کیوں کہ ماضی میں بہت سے مسائل حل ہو چکے ہیں۔