ملٹری بینڈز: جنگوں کا پانسہ پلٹنے کا مؤثر ہتھیار

لاہور: کہتے ہیں، جنگ ہتھیاروں سے لیس ہو کر نہیں، حوصلوں سے لڑی جاتی ہے۔ میدان جنگ میں کثیر عسکری افرادی قوت اور بہترین سازوسامان جس قدر اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اتنے ہی اہم جوانوں کے جذبے و حوصلے گردانے جاتے ہیں۔

شادی کے بینڈ باجے سے 63 مرغیاں ہلاک

عسکری ماہرین میدان جنگ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ دشمن سے برسر پیکار سپاہیوں کی تھکن دور کرنے میں آرمی بینڈز انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ معروف امریکی میوزک کمپوزر اور آرمی مارچز کی دھنیں ترتیب دینے والے فلپ ڈی سوزا تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ملٹری بینڈ کے بنا فوج کے جنگ جیتنے کی امید کم ہو جاتی ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملٹری بینڈ کے بغیر فوج کی کوئی شناخت نہیں ہوتی۔

جنگوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسان کی اپنی تاریخ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ بہترین سپاہ اور شاندار کمک کے علاوہ عسکری میوزک نے بھی جنگ جیتنے میں متاثر کن کردار ادا کرنے میں اپنا حصہ ڈالا شروع کیا تو یہ ضروری قرار پائے۔

قدیم زمانے میں جنگ کے دوران سپاہ کو پیغامات تنبورا کے ذریعے پہنچائے جاتے تھے۔ ان پیغامات میں طبل جنگ بجانے سے لے کر صف بندی، حملہ کرنے، دفاع اور حکمت عملی کو عملی شکل دینا شامل ہوتا تھا۔ ملٹری بینڈز کی علامتی دھنیں سپاہیوں کو پیغام پہنچا دیتیں کہ اب اگلا قدم کون سا اٹھانا ہے؟ کہاں مارچ کرنا ہے؟ کہاں رک کر فارمیشن کرنی ہے؟ کس دھن کو حملہ کرنے کا سگنل سمجھا جائے؟ اور کہاں پیش قدمی کی جائے؟

یہ سب سگنلز ابلاغ کے ایک ذریعے کے طور پر میدان جنگ میں برسر پیکار سپاہیوں کو پہنچا دئیے جاتے تھے۔ فوج شکستہ دل ہوتی، قدم اکھڑنے لگتے تو انہی بینڈز کے آلات سے نکلنے والی دھنیں زخمی سپاہیوں کو اگلے حملے کے لئے تازہ دم بھی کر دیتیں۔ یوں یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ ملٹری بینڈ جنگوں میں پانسہ پلٹنے کی صلاحیت سے لیس ہتھیار ہوا کرتے تھے۔

دیگر اہم جنگی اختراعات کی طرح فوجی دستوں میں ملٹری بینڈز کے اضافے کا سہرا بھی مسلمان سلطانوں کے سر جاتا ہے۔ عثمانی خلافت کی داغ بیل ڈالنے والے سلطان غازی عثمان نے 1299 میں ملٹری بینڈز کی بنیاد رکھی۔

سلجوق سلطان علاء الدین کیقباد نے کچھ مھتر (سلطنت عثمانیہ کا تاریخی ترک ملٹری بینڈ) عثمان اوّل کو بطور تحفہ بھیجے تھے۔ عثمان اوّل کو سلطان کا تحفہ پسند آیا اور انہوں نے ان مہتران کو اپنے جانثاروں میں شامل کرلیا۔ اس کے بعد سے تقریبا سات سو سال یہ روایت برقرار رہی کہ یہ جانثار روزانہ نماز ظہر کے بعد مھترخانے میں جمع ہوکر عثمانی سلاطین کو سلامی پیش کرتے تھے۔ خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد ترکی میں ان مھتران کو عسکری یونٹ سے علیحدہ کرکے بطور ”مھتر بینڈ” برقرار رکھا گیا۔

مغرب نے بعد میں اس تکنیک کو اپنایا۔ برطانوی راج نے سولہویں صدی جب کہ امریکہ میں سترہویں صدی میں ملٹری بینڈز کی بنیاد پڑی۔ امریکہ میں خانہ جنگی کے زمانے میں یہ ملٹری بینڈز سپاہیوں کے ساتھ ساتھ رہتے۔ ان کا مقصد نئی بھرتیاں کرنا اور رجمنٹ کو رضاکاروں میں مقبول بنانا ہوتا تھا، یوں مغرب نے اسے فوج کے مثبت تاثر اور سافٹ پاور کے طور پر استعمال کیا۔

امریکی بینڈ کی ’فنٹاسٹک ٹی‘ کی خواہش، آصف غفور نے دعوت دیدی

۔۔۔ لیکن جوں جوں جنگ کے انداز بدلے، ملٹری اور مارچ بینڈز کی اہمیت بھی کم ہوتی گئی۔ بیسویں صدی میں جب یہ روایت اور تہذیب معدومی کے خدشے سے دوچار ہوئی تو نصف صدی قبل 1970 میں انٹرنیشنل ملٹری میوزک سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پاکستان بھی اس تنظیم کا فعال رکن ہے اور دنیا بھر میں 276 ملٹری بینڈز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔

انٹرنیشنل ملٹری میوزک سوسائٹی یا آئی ایم ایم ایس کی تاریخ میں پہلی بار کسی ایشائی مسلم پاکستانی ڈاکٹر سعد خان کو دو سال کے لیے اس کا چئیرمین منتخب کیا گیا ہے۔ یہ انتخاب پاکستان کے لئے ایک بڑا اعزاز ہے۔

ڈاکٹر سعد خان کو بچپن سے ہی ملٹری بینڈز کی دھنوں سے عشق ہے۔ وہ گزشتہ 20 سال سے پاکستان میں مارچ بینڈ فار پیس نامی تنظیم چلانے کے ساتھ ساتھ ملٹری بینڈز سے متعلق پاکستان کی پہلی کتاب “WHEN MILITARY WAGES PEACE ” کے مصنف بھی ہیں۔ انہوں نے “بینڈ باجہ اور پاکستان” کے نام سے ایک ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم بنائی۔ اس کے علاوہ پاکستان میں متعدد ملٹری ینڈز کے مقابلے اور پرگرامز بھی منعقد کروا چکے ہیں۔

وقت اور جدت کی ہر لمحہ بدلتی جہتوں نے اب جوانوں کا لہو گرمانے کے نت نئے طریقے متعارف کرا دئیے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ریڈیو اور ٹی وی پر نشر ہونے والے نغموں نے ماضی کی جنگوں میں ہماری فتوحات میں متاثر کن کردار ادا کیا۔

قومی نغموں نے محاذ جنگ پر دشمنوں سے برسرپیکار جوانوں اور ان کی پشت پر کھڑی قوم کے لہو کو گرمائے رکھا۔ حالیہ تاریخ میں دہشت گردی کے خلاف آپریشنز میں بھی ان نغموں نے مؤثر کردار ادا کیا ہے۔

ریئلٹی ٹی وی اسٹار کی راک بینڈ کے ڈرمر سے منگنی

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ان بینڈز اور ان کی دھنوں سے تخلیق پانے والی روایت کو ایک تاریخی ورثے کے طور پر سنبھال کر رکھیں تاکہ آئندہ نسلوں کو اپنے شاندار ماضی کی روایات سے روشناس کراسکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں