مسلم لیگ (ق) نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اپنا ذہن بنا لیا

اہم حکومتی اتحادی پاکستان مسلم لیگ (ق) نے وزیراعظم کے خلاف تحریک اعتماد کے سلسلے میں اپنا فیصلہ کرلیا جس کا اعلان پارٹی دیگر حکومتی اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد کرے گی۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات اسپیکر پنجاب اسمبلی نے پارٹی کے مشاورتی اجلاس میں شرکت کے بعد صحافیوں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے کہی۔


ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنا فیصلہ کرلیا ہے، ساتھیوں کے ساتھ حتمی مشاورت جاری ہے، پارٹی دیگر دو حکومتی اتحادیوں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے تاہم انہوں نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا نام نہیں لیا جو حکومتی اتحاد میں شامل ایک اور جماعت ہے۔

مسلم لیگ (ق) پنجاب کے صدر پرویز الٰہی نے اشارہ دیا کہ ان کی جماعت، ایم کیو ایم پی اور بی اے پی مشترکہ فیصلہ کریں گے۔

مشاورت اجلاس کی سربراہی مسلم لیگ (ق) کے علیل صدر چوہدری شجاعت حسین نے کی جس میں چوہدری وجاہت حسین، طارق بشیر چیمہ، مونس الٰہی، سینیٹر کامل علی آغا، حسین الٰہی اور چوہدری امتیاز رانجھا نے شرکت کی۔

پرویز الٰہی نے کہا کہ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ موجودہ اسمبلیاں اپنی 5 سالہ مدت پوری کریں جو اگست 2023 کو اختتام پذیر ہوگی اور یہ بھی کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جہانگیر ترین گروپ میں شامل عون چوہدری اتوار کے روز ان سے ملاقات کے لیے آئے تھے اور آئندہ 2 روز میں اپنے گروپ کے فیصلے سے آگاہ کریں گے۔

سوالات کا جواب دیتے ہوئے پرویز الٰہی نے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا کہ اپنی کوششیں جاری رکھیں، ساتھ ہی کہا کہ قانون اور آئین بہت واضح ہیں اور قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو ان کی پیروی کرنی چاہیے۔

اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ق) نے وزیراعظم عمران خان سے کہا تھا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل عثمان بزدار کی جگہ پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کا اعلان کریں۔

نمبرز گیم
اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد سے جاری سیاسی تھیٹر میں مسلم لیگ (ق) نے محض 5 اراکین اسمبلی کے ساتھ بھی اہم توجہ حاصل کررکھی ہے۔

بظاہر لگتا ہے کہ دیگر 3 اتحادی، ایم کیو ایم، بی اے پی اور جی ڈی اے فیصلہ لینے کے لیے ایک دوسرے کا انتظار کررہے ہیں۔

قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے پیش نظر یہ واضح ہے کہ اگر4 میں سے کوئی 2 اتحادی حکمران اتحاد چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وزیر اعظم خان 342 رکنی ایوان میں اکثریت کھو دیں گے اور سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس صورت حال میں ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کی ذمہ داری وزیراعظم پر ہوگی۔

ایوان کے 17 اراکین کا تعلق اتحادی جماعتوں کا اتحادیوں سے ہے اور حکمران جماعت کو اس وقت 179 ایم این ایز کی حمایت حاصل تھی۔

یہ امر دلچسپ ہے کہ قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان 17 ارکان کا فرق ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں