پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ اسسٹنٹ سیکریٹری اسٹیٹ برائے وسطی اور جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو کو ان کے ‘متکبرانہ انداز اور رویے’ پر برطرف کیا جائے۔
امریکی نیوز چینل سی این این کے پروگرام ‘کنیکٹ دا ورلڈ ’ کو خصوصی انٹرویو میں سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے امریکی سازش کے دعوے کو دہرایا اور مطالبہ کیا کہ ڈونلڈ لو کو برطرف کرنا چاہیے۔
عمران خان کی جانب سے یہ الزام ہے کہ ان کی حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک سے ایک سازش کے ذریعے گرانے میں امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو مرکزی کردار ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین ان پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ڈونلڈ لو نے امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کو دھمکی آمیز انداز میں کہا تھا کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہونے پر پاکستان کو نتایج بھگتنے ہوں گے جبکہ کامیابی کی صورت میں معاف کردیا جائے گا۔
انہوں نے مزید الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دھمکی تحریک عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے سے پہلے دی گئی ہے اور اس کے بعد واقعات ہوتے رہے اور اس کا نتیجے میں مقامی سازشیوں کی مدد سے حکومت ختم کردی گئی۔
سی این این کو عمران خان نے بتایا کہ ‘تصور کریں کہ 22 کروڑ آبادی کے حامل ملک کے سفیر کو کہا جا رہا تھا کہ آپ اپنے وزیراعظم سے چھٹکارا پائیں’۔
میزبان بیکی اینڈرسن کی جانب سے اپنے دعووں کو اس سے پہلے نظرانداز کرنے اور سامنے نہ لانے کے سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ ڈونلڈ لو اور پاکستان کے سفیر کے درمیان ہونے والی ملاقات کی تفصیلات پر مشتمل سائفر کابینہ کے سامنے رکھا گیا جو بعد میں قومی سلامتی کونسل (این ایس سی) کے اجلاس میں رکھا گیا۔
بیکی اینڈرسن نے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ معاملہ امریکی صدر یا سیکریٹری آف اسٹیٹ کے سامنے اٹھایا یا نہیں تو عمران خان نے اس پر جواب نہیں دیا اور کہا کہ این ایس سی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں اور واشنگٹن میں امریکا کو ڈیمارش دیا اور احتجاج کیا جائے گا۔
وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کے پاک-امریکا تعلقات کے حوالے سے دیے گئے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا گیا کہ کیا عمران خان بہتر دوطرفہ تعلقات کو پاکستان کے مفاد میں تصور کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ‘ٹرمپ کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات تھے، یہ صرف بائیڈن انتظامیہ آئی، جن کے ساتھ اتفافی طور پر افغانستان میں جو ہوا اور کچھ اور وجوہات تھیں’۔
دیگر وجوہات کے بارے میں لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ‘تاحال مجھے کچھ علم نہیں اور وہ کبھی میرے ساتھ رابطے میں نہیں رہے’۔
بیکی اینڈرسن نے پوچھا کہ امریکا نے پاکستان کے اندر حکومت کی تبدیلی کے تاثر کو ‘رد’ کردیا ہے تو کیا آپ حکومت گرانے میں بیرونی سازش کیے جانے کے دعوے کو ‘واقعی’ درست سمجھتے ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے جواب دیا کہ امریکی سفارت خانے کی طرف سے پی ٹی آئی کے اراکین کو بلایا گیا اور ملاقاتیں کی گئیں یہاں تک کہ ڈونلڈ لو اور امریکا میں پاکستان کے سفیر سے ملاقات سے قبل بھی ایسا کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘امریکی عہدیدار کے ساتھ ملاقات کیا تھی، انہوں نے پہلے چھلانگ لگائی اور وہی لوگ تھے جنہوں نے میرے اراکین اسمبلی کو فی کس لاکھوں ڈالر کی پیش کش اور پھر انہوں نے بھی چھلانگ لگا دی’۔
عمران خان نے کہا کہ ‘امریکی سفارت خانے کی ہمارے پارٹی کے اراکین سے کیا دلچسپی تھی’۔
بیکی اینڈرس نے آخر میں سوال کیا کہ کیا عمران خان وزارت عظمیٰ کے لیے مہم چلائیں گے تو انہوں نے پیش گوئی کی کہ پی ٹی آئی پاکستان کی تاریخ کی سب سے بری جماعت بن کر ابھرے گی کیونکہ لوگ اپنی توہین سمجھتے ہیں کہ جرائم پیشہ افراد کو ہمارے اوپر مسلط کردیا گیا ہے پاکستان میں غصہ ہے اور امریکا مخالف رویہ ہے۔
عمران خان نے مثالیں دیں کہ امریکا کی جانب سے ایران اور جنوبی امریکی ممالک میں حکومتیں تبدیل کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کے خلاف ناراضی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب غیرمقبول حکومتوں کو طاقت دی جاتی ہے، ‘بدقسمتی سے، بالکل اس وقت امریکا کی مخالفت ہے’۔
دورہ روس سے متعلق بھی سوال
انٹرویو کے دوران بیکی اینڈرسن نے سابق وزیراعظم سے دورہ روس کے حوالے سے بھی پوچھا جہاں اچانک کریملن نے یوکرین میں مداخلت کا اعلان کیا اور پوچھا کہ ‘حالات اچھے نہیں دکھائی دے رہے تھے تو کیا ایسا ہی ہے’۔
تفصیلات بتاتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ‘ایسا نہیں تھا، یہ دورہ بہت پہلے طے ہوا تھا اور پاکستان میں تمام اسٹیک ہولڈرز آن بورڈ تھے، فوج روس سے آلات چاہتی تھی، ہمیں تیل چاہیے تھا، ایک گیس پائپ لائن تھی جس پر میری حکومت سے قبل گزشتہ 6 برسوں سے مذاکرات ہو رہے تھے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘مجھے کیا پتا تھا کہ جب میں ماسکو پہنچوں گا تو صدر ویلادیمیر پیوٹن یوکرین میں مداخلت کا فیصلہ کریں گے’۔
دورے پر کسی قسم کے پچھتاوے سے متعلق سوال کیا گیا اور پوچھا اگر آپ کو دورے سے قبل اس کا معلوم ہوتا تو کیا پھر بھی دورے کا انتخاب کرتے تو سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ‘میں فوجی حل پر یقین نہیں رکھتا، میں سیاسی حل کے لیے کسی قسم کے فوجی پہلو کی مخالفت کرچکا ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ روس جنگ کا اعلان کرےگا’۔