بلوچستان: شیرانی جنگل میں آگ بجھانے کی کوششیں بدستور جاری

کوہ سلیمان کی حدود میں واقع شیرانی جنگل بہت وسیع رقبے پر مشتمل ہے، یہ جنگل شمالی بلوچستان اور جنوبی خیبرپختونخوا تک پھیلا ہوا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس علاقے میں دو قبائل کا غلبہ ہے، ایک شیرانی پشتون اور ہری فال، شیرانی بلوچستان کا ایک دور دراز اور بلکل الگ تھلگ ضلع ہے جس میں ایک بازار تک نہیں ہے، اس ضلع کے لوگ اکثر دیہاتوں میں رہائش پذیر ہیں، یہ جنگل 26 ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے۔

اس علاقے کے رہائشیوں کا ذریعہ معاش چلغوزے کا کاروبار ہے جو شیرانی جنگل میں بڑے پیمانے میں پایا جاتا ہے جبکہ یہاں کے رہائشیوں کا دوسرا ذریعہ معاش سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کام کرنے والے شیرانی قبیلے کے لوگوں کی بھیجی گئی ترسیلات زر ہیں۔

تاہم 18 مئی کو شیرانی میں جنگل میں آگ لگنے سے یہاں کے رہائشیوں کا سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔

آگ بجھانے کا عمل شروع ہونے تک مقامی لوگ بے بسی سے دیکھتے رہے، ان میں سے کچھ اپنے طور پر آگ پر قابو پانے کے لیے پہاڑوں پر چڑھ گئے لیکن بدقسمتی سے ان میں سے تین جان کی بازی ہار گئے جبکہ تین بری طرح زخمی ہو گئے ہیں۔

شیرانی قبیلے کے دوسرے بے سہارا باشندوں کی طرح پہاڑ کے دامن میں بسے ہوئے ایک چھوٹے گاؤں شارغالی سے تعلق رکھنے والے سعد اللہ نے اپنے چلغوزوں کے درختوں کو آگ میں لپٹتے ہوئے دیکھا ہے۔

نم آنکھوں کے ساتھ سعد اللہ نے غم زدہ ہو کر کہا کہ ’میرا پورا خاندان اس کاروبار پر منحصر ہے، اس تجارت سے ہمیں سالانہ 5 لاکھ روپے ملتے تھے۔‘

ایک اور رہائشی ستار شیرانی نے کہا کہ صرف ایک ہیلی کاپٹر اس آگ پر قابو پانے کے لیے کام کر رہا ہے، ذہن یہ ماننے سے انکاری ہے کہ پاکستان کے پاس اس شدت کی آگ سے نمٹنے کے لیے آلات نہیں ہیں۔

آگ پر قابو پانے کے لیے ریسکیو کا عمل
آگ پر قابو پانے، چلغوزوں اور زیتون کے باقی ماندہ درختوں کی حفاظت کے لیے فوج اور ایف سی کے ہیلی کاپٹر آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں، ژوب ڈویژن کے کمشنر بشیر احمد بازئی نے ڈان کو بتایا کہ ہم آگ پر قابو پانے اور جنگلات کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہے ہیں اور دستیاب وسائل کو بروئے کار لا رہے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود تیز ہواؤں کی وجہ سے آگ کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، انہوں نے مزید کہا کہ لاہور سے فائر فائٹنگ کا سامان اور رضاکار بھی پہنچ رہے ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی نے صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ضلع شیرانی کا دورہ کیا ہے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ہلاک ہونے والے تینوں افراد کے لواحقین کے لیے فی کس 10 لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے 5 لاکھ روپے کے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔

اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں صوبائی حکومت کے ترجمان نے امداد فراہم کرنے پر ایران حکومت کا شکریہ ادا کیا۔

کچھ مقامی لوگوں کے مطابق یہ حالات ناگوار ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ آگ زور پکڑ رہی ہے اور اگر اسے جلد ہی نہیں بجھایا گیا تو یہ مزید علاقوں کو تباہ کر دے گی۔

بلوچستان کے چلغوزوں کے منصوبوں کے کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ موسیٰ خیل کا کہنا ہے کہ اب تک جنگل کا کم از کم ایک تہائی رقبہ متاثر ہوا ہے۔

انہیں امید ہے کہ ایرانی طیارہ 12 چکروں میں آگ پر قابو پا لے گا لیکن دوسرے سرکاری عہدیداروں کی طرح ان کی سب سے بڑی امید بارش ہے۔ جو ایک ہی بار میں مکمل طور پر آگ بجھا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک حد تک ہم نے جنگل کے کچھ حصوں میں رکاوٹیں قائم کر دی ہیں تاکہ دوسرے علاقوں کو تباہی سے بچایا جا سکے، شیرانی میں جنگل کے دیگر حصوں میں آگ کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ہم نے 10 مربع کلومیٹر کے رقبے پر جھاڑیوں کو ہٹا دیا ہے۔

شیرانی کے دیہاتیوں میں سے کچھ اس بات پر نوحہ کناں ہیں کہ جانوروں اور پرندوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوگئی ہے۔

دوسری جانب بلوچستان حکومت نے صوبے کے تمام جنگلات میں کیمپ لگانے، کھانا پکانے اور پکنک منانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں