افغانستان کے عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے کہا ہے کہ افغانستان میں برسر اقتدار طالبان کی حکومت امریکا کو اپنا ‘دشمن’ نہیں سمجھتی بلکہ اچھے تعلقات استوار کرنا چاہتی ہے لیکن واشنگٹن کے طرز عمل کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے ارادوں اور عزائم پر تحفظات ہیں۔
افغان طالبان کے نائب سربراہ اس وقت بھی امریکا کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں اور ان کی گرفتاری میں مدد دینے پر امریکا نے ایک کروڑ ڈالر انعامی رقم کا اعلان کر رکھا ہے۔
سراج الدین حقانی نے پہلی مرتبہ آن کیمرا انٹرویو دیا اور امریکی نشریاتی ادارے ‘سی این این’ کی نیوز اینکر کرسٹین امان پور کے سوالوں کے جواب دیے۔
افغان وزیرداخلہ کی جانب سے یہ انٹرویو افغان دارالحکومت کابل میں پولیس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرنے کے لیے پہلی بار عوام میں سامنے آنے کے 2 ماہ بعد دیا گیا ہے۔
انٹرویو کے دوران کرسٹین امان پور نے سراج الدین حقانی سے سوال کیا کہ کیا آپ امریکا کو اب بھی اپنا دشمن سمجھتے ہیں؟ تو سراج الدین حقانی اپنے جواب کا آغاز یہ کہتے ہوئے کیا کہ وہ یہاں چھوٹی سی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 20 برس کے عرصے میں دفاعی لڑائی اور جنگ کی صورت حال تھی، جب فروری 2020 میں دوحہ میں افغان طالبان اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا تو ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم اس کے بارے میں بات نہیں کریں گے۔
تاہم سراج الدین حقانی نے اس دوران مزید وضاحت نہیں کی کہ کس معاملے کے بارے میں مزید بات نہیں کی جائے گی۔
طالبان کے نائب سربراہ نے مزید کہا کہ مستقبل میں ہم امریکا اور عالمی برادری کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہیں گے، ایسے تعلقات جو ان موجودہ اصول و ضوابط پر مبنی ہوں جو پوری دنیا کے لیے رائج ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے انتظامات کی بنیاد پر ہم نے ان کے ساتھ عہد کیا ہے جبکہ فی الحال ہم امریکیوں کو اپنے دشمن کے طور پر نہیں دیکھتے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کے طرز عمل کی بنیاد پر افغان عوام کو ان کے ارادوں، عزائم اور ان کی نیت کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری جانب سے ملک کی آزادی اور ملکی دفاع کے لیے جدوجہد کرنا عالمی قوانین کے مطابق ہمارا جائز حق ہے، انہوں نے اس بات کو پھر دہراتے ہوئے کہا کہ اس وقت طالبان امریکا کو دشمن نہیں سمجھتے۔
سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ ہم نے سفارتی تعلقات کے بارے میں بارہا بات کی ہے، ہم دوحہ معاہدے کے پابند ہیں، ہم سفارتی اصولوں اور روایات کی بنیاد پر باقی دنیا کی طرح ان کے ساتھ تعلقات چاہتے ہیں، جیسے تعلقات وہ ہمارے ساتھ قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اس معاملے سے آگے بڑھتے ہوئے، کرسٹین امان پور نے سراج الدین حقانی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ان کے سر پر نہ صرف کروڑوں ڈالر کی انعامی رقم کا اعلان کیا گیا ہے بلکہ ان پر امریکا کی جانب سے پابندیاں بھی عائد ہیں، اینکر نے سراج الدین حقانی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک ‘اعلی مغربی عہدیدار’ کا حوالہ بھی دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں پہنچنے سے پہلے یہ بات ایک اعلیٰ مغربی عہدیدار نے مجھے بتائی کہ ، ہم ایک تبدیل شدہ دنیا میں ہیں، اس آدمی (سراج الدین حقانی) کے ہاتھوں پر بہت زیادہ امریکی شہریوں کا خون ہے، اس کے طالبان رہنماؤں میں سے انتہا پسند تحریکوں کے ساتھ سب سے گہرے تعلقات ہیں، وہ اپنی وزارت میں خواتین کو دوبارہ کام کرنے کی اجازت دینے والے اولین لوگوں میں سے ایک ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ان کی وزارت کو دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے امید افزا اقدامات کرتے ہوئے دیکھا ہے، ان اقدامات کو متضاد کہنا ایک بات کو کم تر کرکے بتانے کے مترادف ہوگا، اس مغربی عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ صرف میرا نکتہ نظر نہیں ہے، یہ ان معاملات پر کام کرنے والے ہر عہدیدار کی رائے ہے’۔
اس کے بعد سی این این کی اینکر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جہاں ایک طرف امریکا سراج الدین حقانی کو دہشت گرد قرار دیتا ہے وہیں دوسری جانب وہ سمجھتا ہے کہ وہ سراج الدین حقانی کے ساتھ کام کر سکتا ہے۔
اینکر نے سراج الدین حقانی سے سوال کیا کہ اس صورتحال میں آپ کیا کہتے ہیں؟ جواب میں سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ امریکیوں کو خود کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ محفوظ افغانستان بنانے کے لیے طالبان نے دنیا کے ساتھ ساتھ افغان قوم کو بھی ایک مثبت پیغام دیا ہے۔
سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ ماضی کے حالات نے ہمارا اصل تشخص پوشیدہ اور اوجھل رکھا ہوا تھا جبکہ اللہ کا شکر ہے کہ فی الحال آزادی کی صورت حال کے باعث ہمارا طرز عمل آہستہ آہستہ عالمی برادری کے ساتھ ساتھ، ملک کے ان حلقوں پر بھی ظاہر و آشکار ہو رہا ہے جو ہمارے بارے میں منفی سوچ اور خیالات رکھتے تھے۔
‘اپنی سر زمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے’
انٹرویو کے دوران کرسٹن امان پور نے افغانستان میں حملوں میں حالیہ اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے سراج الدین حقانی کو یاد دلایا کہ طالبان نے امریکا سے وعدہ کیا تھا کہ افغانستان کو دہشت گردی اور اس کے اتحادیوں کے لیے پناہ گاہ کے طور استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا اور پوچھا کہ تو کیا آپ اب بھی اپنے اس عزم پر قائم ہیں؟
اس کے جواب میں سراج الدین حقانی نے ایک بار پھر 2020 کے دوحہ معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ معاہدے کے بعد 14 ماہ کے دوران ‘مخالف فریق’ کی جانب سے طالبان کے خلاف بڑی تعداد میں خلاف ورزیاں ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ ان خلاف ورزیوں کے باوجود ہماری قیادت بار بار ہمیں سفارشات دے رہی تھی کہ ہمیں اپنے عہد پر قائم رہنا چاہیے، ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ کابل کی آزادی تک ہم اپنے عزم کو برقرار رکھنے اور پرامن طریقوں سے اقتدار میں آنے کی کوششیں کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ہمیں اندرونی خطرات ہیں، کسی گروہ اور تنظیم کا نام لیے بغیر ان کا کہنا تھا کہ کچھ گروہ جان بوجھ کر خطرات بڑھا رہے ہیں تاکہ قوم اور عالمی برادری کے لیے تشویش ہو۔
سراج الدین حقانی نے کہا کہ باقی دنیا کے لیے خطرات ہو سکتے ہیں جو حکومت کے ذریعے ترتیب دیے جاتے ہیں لیکن ہم باقی دنیا کو یقین دلانا چاہیں گے کہ ہماری سرزمین کسی ملک کے خلاف خطرے کے طور پر استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔
لڑکیوں کی تعلیم
سی این این کی صحافی نے طالبان رہنما سے انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے حقوق اور افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی پر پابندی کے معاملے پر بھی سوالات پوچھے۔
اینکر نے اپنے سوالات کے دوران 2020 میں نیو یارک ٹائمز میں سراج الدین حقانی کی جانب سے لکھے گئے ایک پیراگراف کا حوالہ بھی دیا۔
پیراگراف میں لکھا گیا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ غیر ملکی تسلط اور مداخلت سے آزاد ہو کر ہم مل کر ایک ایسا اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے راستہ تلاش کریں گے جہاں تمام افغانوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں، جہاں اسلام کی جانب سے عطا کیے گئےخواتین کے تعلیم سے لے کر کام کرنے کے حق تک کے حقوق محفوظ ہوں گے اور جہاں اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر سب کو مساوی مواقع حاصل ہوں گے۔
اس پیرا گراف کا حوالہ دیتے ہوئے کرسٹن امان پور نے طالبان رہنما سے سوال پوچھا کہ کیا وہ اب بھی اس پر یقین رکھتے ہیں جو انہوں نے دو سال پہلے لکھا تھا۔
اس پر سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ ہماری جانب سے اس طرح کے عزائم اس وقت ظاہر کیے گئے تھے جب جنگ کی صورتحال تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ مخالف جماعتوں نے ہماری انتظامیہ کی بہت بری تصویر کشی کی اور ہمیں بہت منفی انداز میں متعارف کرایا، ہم پرامن طریقے سے حکومت حاصل کرنا چاہتے تھے جبکہ سابق حکومت نے کچھ دوسرے حلقوں کی مدد سے اقتدار کی منتقلی کے لیے ہمارے مخصوص منصوبے کو سبوتاژ کیا۔
افغانستان کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے طالبان کے نائب سربراہ نے کہا کہ بہت سی افواہیں اور سنی سنائی باتیں ہیں، اس وجہ سے یہ فیصلہ ان کے سامنے ہے تاکہ ہم ان وعدوں پر عمل درآمد کر سکیں جو ہم نے اعتماد کے ماحول میں کیے تھے۔
جب کرسٹن امان پور نے خاص طور پر ان سے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت ہونی چاہیے تو انھوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی شخص نہیں ہے جو خواتین کی تعلیم کی مخالفت کرتا ہو۔
سراج الدین حقانی نے کہا کہ چھٹی جماعت تک پڑھنے والی لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دی گئی تھی جبکہ لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول جانے کے قابل بنانے کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کے لیے کام جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم کی قیادت یا کابینہ کی سطح پر مخالفت نہیں کی گئی ہے لیکن اس معاملے کو اگلے نوٹس تک ملتوی کر دیا گیا ہے، وزارت تعلیم کی جانب سے فراہم کردہ اعلامیہ میں تیاریوں اور انتظامات میں کچھ خامیاں تھیں جن پر کام جاری تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس انٹرویو اور نیوز چینل کے ذریعے میں سب کو یقین دلا رہا ہوں کہ تعلیم کا کوئی مخالف نہیں ہے اور طریقہ کار پر کام جاری ہے۔
اس موقع پر سی این این کی صحافی نے سراج الدین حقانی سے سوال کیا کہ کیا گزشتہ چند روز کے دوران اس معاملے پر کوئی فیصلہ ہوا؟
جس پر سراج الدین حقانی نے جواب دیا کہ میں آپ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ ان شااللہ بہت جلد آپ اس معاملے کے بارے میں اچھی خبر سنیں گی، ہم ایک وقت بتا دیں گے، قیادت کی جانب سے جو انتظام کیا گیا ہے اس پر کام جاری ہے، جلد ہی آپ کو بہت اچھی خبر سننے کو ملے گی۔
کرسٹن امان پور نے پھر ان سے پوچھا کہ اگر ان کی بیٹیاں ہوں تو کیا وہ اپنی بیٹیوں کا اسکول جانا پسند کریں گے۔
اس پر طالبان رہنما نے اپنا جواب یہ کہتے ہوئے شروع کیا کہ ہم سب یقین رکھتے ہیں کہ تعلیم کو خدا کی جانب سے ایک نعمت کے طور پر تخلیق کیا گیا ہے جو مرد اور عورت دونوں کے لیے ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ کوئی بھی تعلیم کا مخالف نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت مسئلہ افغان طرز فکر اور افہام و تفہیم پر مبنی تعلیم کی ضرورت ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک وسیع تر سطح پر اسلامی اصول اور قوانین ترتیب دینے کا ضرورت ہے، افغانستان میں جو صورت حال ہے اس میں خواتین کی عزت اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں انتظامات کرنے ہیں۔
طالبان انتظامیہ سے لڑکیوں کی تعلیم کو مستقبل میں تسلیم کرنے کے لیے عالمی برادری کا ایک اہم مطالبہ ہے، طالبان نے گزشتہ برس اگست میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔
اس کے باوجود طالبان نے لڑکیوں اور خواتین کو کام کرنے سے روک دیا ہے اور بغیر کسی قریبی مرد رشتےدار کے تنہا سفر پر پابندی لگا دی ہے جبکہ زیادہ تر لڑکیوں کو ساتویں جماعت سے آگے اسکول جانے سے بھی روک دیا گیا تھا۔