الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کے بجائے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حمزہ شہباز کی حمایت میں ووٹ دینے والے 25 منحرف اراکین کی صوبائی اسمبلی کی رکینیت ختم کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کے ریفرنس پر اراکین کو ڈی سیٹ کرنے فیصلہ دیا تھا۔
اعلامیے کے مطابق پنجاب اسمبلی کے عمومی نشستوں پر منتخب ہونے والے 20 اراکین، خواتین کی مخصوص نشستوں پر 3 اور اقلیتی نشستوں پر براجمان 2 اراکین کی رکنیت ختم کی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ صغیر احمد، ملک غلام رسول سنگھا، سعید اکبر خان، محمد اجمل، عبدالعلیم خان، نذیر چوہان، محمد امین ذوالقرنین، نعمان لنگڑیال، محمد سلمان نعیم، زوار حسین وڑائچ، نذیر احمد خان، فدا حسین، زہرہ بتول، محمد طاہر، عائشہ نواز، ساجدہ یوسف، ہارون عمران گِل، عظمیٰ کاردار، ملک اسد علی، اعجاز مسیح، محمد سبطین رضا، محسن عطا خان کھوسہ، میاں خالد محمود، مہر محمد اسلم، فیصل حیات صوبائی اسمبلی کی رکنیت ختم کردی گئی ہے۔
خیال رہے الیکشن کمیشن کی جانب سے 20 مئی کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کی حمایت کرنے والے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ دیا گیا تھا جس کا اعلامیہ آج جاری کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی روشنی میں فیصلہ اتفاق رائے سے سنایا تھا، تاہم تحریک انصاف کے منحرف اراکین پنجاب اسمبلی تاحیات نااہل قرار نہیں دیا گیا تھا۔
ان میں سے متعدد اراکین کا تعلق جہانگیر ترین گروپ، علیم خان گروپ اور اسد کھوکھر گروپ سے تھے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد منحرف اراکین اسمبلی کے وکیل خالد اسحٰق نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہو سکتی ہے اور قانون کے مطابق 30 دن میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ 90 دن میں اپیلوں پر فیصلہ کر سکتی ہے تاہم اپیلیں دائر کرنے کا فیصلہ مشاورت کے بعد ہوگا۔
ای سی پی نے ایک روز قبل اس کیس میں مدعا علیہان کو نوٹس جاری کیے تھے۔
کمیشن نے 17 مئی کو ریفرنس پر اپنا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا اعلان آئندہ روز (بدھ) کو 12 بجے کیا جائے گا تاہم بعد میں اس اعلان کو ملتوی کردیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹوں نے حمزہ شہباز کو اکثریت حاصل کرنے میں مدد دی، انہوں نے مجموعی طور پر 197 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ سادہ اکثریت کے لیے 186 ووٹ درکار تھے۔
حمزہ شہباز کے 16 اپریل کو وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے 25 اراکین صوبائی اسمبلی کو منحرف قرار دینے کا اعلامیہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہٰی کو بھیجا تھا، جو وزیر اعلیٰ کے لیے پی ٹی آئی،پی ایم ایل (ق) کے مشترکہ امیدوار بھی تھے۔
بعد ازاں پرویز الہٰی نے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجا تھا اور اس پر زور دیا تھا کہ ان قانون سازوں کو پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ ڈال کر پی ٹی آئی سے منحرف ہونے پر ڈی سیٹ کیا جائے۔
ڈی سیٹ ارکان اسمبلی کے نام اور حلقے
راجا صغیر، پی پی 7 راولپنڈی
ملک غلام رسول سانگھا، پی پی 83 خوشاب
سعید اکبرخان نوانی، پی پی 90 بھکر
محمد اجمل چیمہ، پی پی 97 فیصل آباد
عبد العلیم خان، پی پی 158 لاہور
نذیر احمد چوہان، پی پی 167 لاہور
محمد امین ذوالقرنین، پی پی 170 لاہور
ملک نعمان لنگڑیال، پی پی 202 ساہیوال
محمد سلمان نعیم، پی پی 217 ملتان
زوار حسین وڑائچ، پی پی 224 لودھراں
نذیر احمد خان، پی پی 228 لودھراں
فدا حسین، پی پی 237 بہاولنگر
زہرا بتول، پی پی 272 مظفر گڑھ
محمد طاہر، پی پی 282 لیہ
اسد کھوکھر، پی پی 168 لاہور
محمد سبطین رضا، پی پی 273 مظفر گڑھ
محسن عطا خان کھوسہ، پی پی 288 ڈی جی خان
میاں خالد محمود، پی پی 140 شیخوپورہ
مہر محمد اسلم، پی پی 127 جھنگ
فیصل حیات جبوانہ، پی پی 125 جھنگ
ہارون عمران گل، این ایم 364 اقلیتی نشست
اعجاز مسیح، این ایم 365 اقلیتی نشست
عائشہ نواز، ڈبلیو 322 مخصوص نشست
ساجدہ یوسف ڈبلیو 327 مخصوص نشست
عظمیٰ کاردار ڈبلیو 311 مخصوص نشست
خیال رہے آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے، اس کارروائی کے لیے پارٹی کا سربراہ اسپیکر صوبائی اسمبلی اور اسپیکر الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجتا ہے، جس کے بعد الیکشن کمیشن منحرف رکن کی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔