سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن کا خفیہ لابنگ میں ملوث ہونے کا اعتراف

عدالتی ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے اپنی ملازمت دوران اور ریٹائر کے بعد قطر کے لیے خفیہ لابنگ کا جرم قبول کیا ہے۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان پر پاکستان میں امریکی سفیر کی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران قطر کے شاندار دورے کا الزام بھی ہے۔

انہوں نے اپنے وکیل کی طرف سے جمع کرائے گئے اعترافی خط میں لکھا کہ ’میں اپنے اوپر عائد کیے گئے جرائم کے الزام کا اعتراف کرکے کیلیفورنیا کے سینٹرل ڈسٹرکٹ اور کولمبیا میں مقدمے کی سماعت سے دستبردار ہونا چاہتا ہوں۔

رچرڈ اولسن نے پاکستان اور افغانستان میں امریکا کے خصوصی ایلچی کے طور پر بھی خدمات انجام دیں، ان پر وفاقی عدالت میں حدود کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے ملازمت اور ریٹائرمنٹ کے بعدایک سال کے دوران بیرون ملک کے لیے لابنگ کی۔

سابق امریکی صدر براک اوبامہ نے 2012 میں رچرڈ اولسن کو بطور سفیر پاکستان میں تعینات کیا تھا، یہ 2011 میں امریکا کی ایبٹ آباد میں کارروائی کے بعدعہدے سے مستعفی ہونے والے کیمرون منٹر کے پیش رو تھے۔

کیمرون منٹر نے اوسامہ بن لادن کو ختم کرنے سے متعلق کارروائی کے بارے میں پاکستان کو آگاہ نہیں کیا گیا تھا جس کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں تناؤ بڑھ گیا تھا۔

اولسن نے 31 اکتوبر 2012 کو آصف زرداری کو اپنی دستاویزات جمع کروائی تھیں اور انہوں نے 27 اکتوبر2015 تک پاکستان میں اپنے عہدے کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔

اولسن کے خلاف الزامات میں دفتر میں رہتے ہوئے غیر ملکی کام کرنا اور ریٹائرمنٹ کے بعد واشنگٹن میں قطری مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرنا شامل ہے۔

امریکی محکمہ انصاف نے ان پر کاغذی کارروائی میں غلط بیانات درج کرنے اور سابق وفاقی عہدیداروں کی طرف سے غیر ملکی لابنگ کرنے سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کا الزام بھی عائد کیا ہے، یہ دونوں معاملات بد عنوانی کے زمرےمیں آتےہیں۔

امریکی میڈیا کی جانب سے دیے گئے عدالتی دستاویز کے حوالے کے مطابق رچرڈ اولسن کو اس کام کے لیے ایک نامعلوم پاکستانی امریکن لابیسٹ سے ماہانہ 20 ہزار ڈالر کی رقم موصول ہوئی۔

رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ لابیسٹ نے 2015 میں خدمات کی انجام دہی کے دوران ایک نامعلوم بحرینی کاروباری شخص سے ملنے کے لیے رچرڈ اولسن کو لندن بھیجا، اس کاروباری شخص نے انہیں اپنی کمپنی میں 3 لاکھ ڈالر سالانہ کے معاہدے کی پیشکش کی تھی۔

استغاثہ نے یہ بھی دعویٰ ہے کہ 2016 کے آخر میں سرکاری ملازمت چھوڑنے کے بعد رچرڈ اولسن نے اپنے پاکستانی نژاد امریکی رابطے اور قطری حکومت کے اعلیٰ حکام کے ساتھ مل کر واشنگٹن میں دوحہ کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے کام کیا۔

امریکی میڈیا کی جانب سے شیئر کی گئی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک نے 2017 میں قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے اور دہشت گردی کی مالی معاونت کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی واحد زمینی سرحد کو بند کر دیا اس وقت رچرڈ اولسن نے لابنگ کی کہ امریکی حکام تنازعے میں قطر کا ساتھ دیں۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے قطری حکومت کی لابنگ مہم کے لیے پس پردہ تعاون بھی فراہم کیا جس کا مقصد دوحہ ایئرپورٹ پر امریکی کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن پری کلیئرنس سہولیات بھی فراہم کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں