دائیں بازو کا ووٹ بینک جیتنے کے لیے پنجاب کابینہ نے مسلم عائلی قوانین آرڈیننس 1961 کے تحت مغربی پاکستان قواعد میں ترمیم کی منظوری دے دی۔
اس میں ایک ذیلی شق شامل کی گئی ہے جس کے تحت وہ جوڑے جو شادی کرنا چاہتے ہیں انہیں نکاح کے وقت ختم نبوت ﷺ پر ایمان کے ثبوت کے طور پر حلف اٹھانا ہوگا۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ترمیم کے حوالے سے صوبائی حکومت کے ارادے واضح نہیں، تاہم سول سوسائٹی اور وکلا برادری کی جانب سے اس ترمیم کے مقاصد پر سوال اٹھائے گئے ہیں کیوں کہ ایمان کے حوالے سے آئین اور قانون میں متعلقہ شرائط موجود ہیں۔
وکیل اسد جمال نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ جب مسلم عائلی قوانین صوبائی معاملہ نہیں ہے تو پنجاب اکیلے اس معاملے میں مداخلت کیوں کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کو اس کے بجائے وفاق کو تجویز بھیجنی اور یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اگر یہ کام نہیں کیا گیا تو قوم تباہ ہوجائے گی۔
بات جاری رکھتے ہوئے اسد جمال نے کہا کہ کیا پنجاب میں مذہب کو کوئی خاص خطرہ ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں دائیں بازو کی تحریک بلاشبہ مضبوط ہے اور ممکنہ طور پر انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، کیونکہ لوگ اس حوالے بات کرتے ہوئے خوف کھائیں گے۔
اسد جمال نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہر مسلمان ختم نبوتﷺ پر ایمان رکھتا ہے اور سوال کیا کہ کیا کابینہ سمجھتی ہے کہ کچھ لوگ اپنے ایمان کے حوالے سےجھوٹ بول رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب تک ضرورت کا ثبوت نہ ہو اس طرح کی قانون سازی عموماً شرارت میں کی جاتی ہی، یہ 1980 میں توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کی طرح ہے جو بغیر اس ثبوت کے کی گئی تھی کہ مسلمانوں کے ایمان کو کسی قسم کا کوئی خطرہ ہے‘۔
سینئر وکیل نے کہا کہ ’ اس طرح کی وضاحتیں آئی ڈی کارڈ اور پاسپورٹ جیسی شناختی دستاویزات کے لیے پہلے ہی درکار ہوتی ہیں تو کیا موجودہ قوانین اور آئین کافی نہیں ہے؟ مذکورہ تجویز کس تحفظ کی ضمانت دیتی ہے‘۔
اسد جمال نے اسے مذہب اور مذہبی جذبات پر سیاست قرار دیا۔
وکیل اور خواتین کے حقوق کی سماجی رہنما نگہت داد نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب شادی کرنے والا جوڑا کسی سرکاری عہدے پر براجمان ہونے نہیں جارہا تو اس طرح کا حلف کیوں درکار ہوگا۔
انہوں نے اسد جمال کے جیسے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر پاکستانی شہری کو شناختی دستاویزات کے لیے پہلے ہی اس قسم کا حلف درکار ہوتا ہے اور جب کوئی شخص سرکاری عہدہ نہیں سنبھال رہا ہے تواس کی ضرورت کیوں ہوگی؟
ان کا کہنا تھا کہ مذہب اور ایمان ہر کسی کا ذاتی انتخاب ہے، تو اس کے لیے شادی یا اس طرح کے کسی معاملے سے پہلے حلف کیوں اٹھایا جائے؟
انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’ شادی، نکاح اور اس کے بعد پیدا ہونے والے کسی بھی مسئلے کے لیے پاکستانی مسلم عائلی قوانین واضح ہیں، تو اس طرح کے حلف کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔
بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’نکاح نامے میں تمام متعلقہ شرائط پہلے ہی شامل ہیں، تو یہ ایک بظاہر غیر ضروری عمل لگتا ہے‘۔
’ویمن ان اسٹرگل فار امپاورمنٹ‘ نامی ادارے کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بشریٰ خلیق کا کہنا ہے کہ اگر ریاست شادی جیسے ذاتی معاملات کو ادارہ جاتی بناتی ہے تو اس سے مذہب مزید حساس مسئلہ بن جائے گا جو اس خطے میں پہلے ہی ایک حساس معاملہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم مذہب کے حوالے سے پہلے ہی بہت حساس اور جذباتی ہیں، اور اس ردعمل دیتے ہیں جو اکثر دوسروں کے حقوق کے لیے امتیازی اور ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والا ہوتا ہے
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم ایمان کی وضاحت کو شادی کے لیے پیشگی شرط بنادیں گے تو معاملے کی حساسیت میں اضافہ ہوجائے گا اور یہ مسئلہ مذہبی اقلیتوں کو الگ تھلگ کرنے اور ان کے ساتھ امتیازی رویے کا سبب بنے گا۔
بشریٰ خلیق کا ماننا ہے کہ اس طرح کے اقدامات بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن کے خلاف ہوں گے، جس میں کسی بھی مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں تفریق پہلے ہی عام ہے اور معمول کا حصہ معلوم ہوتی ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ترقیاتی قوانین بنانے کے بجائےاس طرح کے فیصلے ان جوڑوں کے لیے مزید مشکلات کا سبب بنیں گے جو اپنا مذہب ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔
سماجی رہنما کا کہنا تھا کہ شادی کو آئینی احاطے میں لانے کی ضرورت نہیں ہے، یہ حساسیت، معاشرے میں تقسیم، جانبداری میں اضافہ کرتے ہوئے مزید امتیاز کا سبب بنے گا۔