پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ جو الیکشن کمیشن راجا ریاض جیسے کردار کے آدمی کے دستخط سے وجود میں آیا ہو، اس الیکشن کمیشن کی کیا عزت ہوگی، اس الیکشن کمیشن کی تبدیلی کے لیے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ایک ماہ گزر گیا حمزہ شہباز کا کیس ختم ہی نہیں ہورہا ہے، یہ کیس اس طرح نمٹانا چاہیے جس طرح سپریم کورٹ نے اسپیکر کی رولنگ کا کیس 5 روز میں نمٹایا ہے۔
حمزہ شہباز کے بطور وزیر اعلیٰ انتخاب سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک مہینے سے زائد ہوگیا یہ مسئلہ ختم ہی نہیں ہورہا ہے اس کی وجہ سے پنجاب بحران میں ہے، اور اگر پنجاب بحران میں ہے تو پورا ملک بحران میں ہے کیونکہ 60 فیصد سے زائد آبادی اس صوبے سے تعلق رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح ہے کہ منحرف اراکین کے ووٹ نہیں گنے جائیں گے اگر حمزہ شہباز کے کیس میں ایسا ہوتا ہے کہ تو یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ہمارا مطالبہ بہت سادہ ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا ہے جس کے مطابق حمزہ شہباز کے پاس اکثریت نہیں رہی ہے، وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کریں یا دوسری صورت میں اسپیکر کا انتخاب کروائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 224 کہتا ہے کہ ’اگر خصوصی نشست کا رکن ڈی سیٹ ہوتا ہے تو اس سے نیچے دوسرا رکن خود اپ گریڈ ہوجاتا ہے، ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت گزر گیا ہے الیکشن کمیشن ہمارے اراکین کے اپ گریڈ ہونے کا نوٹی فیکشن جاری نہیں کر رہا ہے‘۔
فواد چوہدری نے کہا ہے کہ جو کمیشن راجا ریاض جیسے کردار کے آدمی کے دستخط سے وجود میں آیا ہو، اس الیکشن کمیشن کی کیا عزت ہوگی، موجودہ نظام میں کوئی معزز شخص نہیں ملے گا، چاہے وہ چیئرمین نیب ہو یا الیکشن کمیشن کے اراکین کا معاملہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تعیناتیاں اپوزیشن اور حکومت کی مشاورت سے کی جاتی ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ جن لوگوں نے اس نظام میں یہ عہدے قبول کیے ہیں ان سے کیا امید رکھتے ہیں، الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 224 کو عملی طور معطل کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری اراکین کو اس لیے نوٹیفائی نہیں کیا جارہا ہے کہ اگر وہ 5 اراکین آجاتے ہیں تو پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے اراکین کی تعداد 173 ہوجائے گی، حمزہ شہباز کے پاس ووٹوں کی تعداد 172 ہے، پورا سسٹم یہ کوشش کر رہا ہے کہ ایک غیر قانونی شخص کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے چمٹائے رکھا جائے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ موجودہ حکومت کے تمام فیصلے غلط ہیں ان کی تعیناتیاں غلط ہیں، انہوں نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ پر کسی حقیقی حکم نامے کے بغیر تشدد گیا، اس میں ملوث تمام افراد کو نشانِ عبرت بنائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ کسی کی یہ جرت نہیں ہوگی کہ وہ آئین اور قانون سے آگے جاکر حکومت کی چاپلوسی کرے۔
پی ٹی آئی کے رہنما کا کہنا تھا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ آدھی رات کو عدالتیں کھلتی ہیں تو آپ مائنڈ کر جاتے ہیں، عدالت کو مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی کو سن کر فیصلہ نہیں دینا چاہیے، قانون کے مطابق فیصلہ دینا چاہیے۔
سابق وزیر اطلاعات نے کہا کہ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا کہ جب ہم دیکھتے ہیں ایک پارٹی کے لیے 5 روز میں فیصلے ہوتے ہیں، رات 12 بجے پیٹیشن سنی جاتی ہیں اور رات گئے عدالت کھل جاتی ہے جبکہ دوسری پارٹی آپ کے سامنے کھڑی ہوئی، خلاف ورزی سامنے ہے اور آپ تاریخ پر تاریخ دیے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر ہیں انہیں احساس کرنا چاہیے، وہ پاکستان کے آئین کے مطابق خدمات انجام دیں اور کسی پارٹی کو خوش کرنے کے چکر میں نہ پڑے۔
عمران خان کی حکومت کو 6 دن کی مہلت کے بعد لانگ مارچ سے متعلق پروگرام پر سوال فواد چودہدری نے کہا کہ تحریک انصاف کوئی عسکریت پسند پارٹی نہیں ہے، ہم کوئی شدت پسند گروہ نہیں ہے جو اسلحے لے کر آئیں گے اور اسلام آباد کو یرغمال بنا لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک پاکستان کے بعد اگر خواتین سیاست میں آئی ہیں تو وہ عمران خان اور تحریک انصاف کی وجہ سے آئی ہیں، ہماری خواتین اور بچوں کو صرف امن چاہیے، ہماری خواہش یہ ہے کہ ہم ایک پُر امن احتجاج کی کال دیں اگر اس میں بھی دو مہینے لگ جائیں گے تو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
بیک ڈور ملاقاتوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہمارے اوپن مذاکرات ہوئے ہیں کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہوتا ہے کہ آپ آپس میں بات چیت ہی نہ کریں، ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ آپ نئے انتخابات کے فریم ورک پر بات چیت کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس الیکشن کمیشن کو تبدیل کرنے کے لیے ہم مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بیٹھنے کو تیار ہیں، نئے انتخابات کی شرائط اور طریقہ کار پر بھی ہم بات کرنے کو تیار ہیں۔
رکن قومی اسمبلی کی حیثیت رکھنے یا نہ رکھنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اسپیکر کے پاس اختیار نہیں ہے، ہمارے اسپیکر استعفے قاسم سوری منظور کر چکے ہیں، ان کے پاس اختیار نہیں ہے کہ ہمیں بلا کر ہم سے پوچھیں کہ ہمارے استعفے منظور ہوئے ہیں یا نہیں ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ واحد حل یہ ہے کہ 131 حلقوں پر انتخابات کروائے جائیں۔
عمران خان کی جانب سے اسٹیبلمشنٹ کے نمبر بلاک ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نمبر کھلتے بلاک ہوتے رہتے ہیں۔