کچھ مظاہرین مسلح تھے، خونریزی سے بچنے کیلئے آزادی مارچ ختم کیا، عمران خان

سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے آزادی مارچ ختم کرنے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں خدشہ تھا کہ ’خونریزی‘ ہونے والی ہے کیونکہ ان کی پارٹی کے کچھ کارکن بھی مسلح تھے اور حکام کی جانب سے کئی گھنٹوں سے جاری گولہ باری کے خلاف جوابی کارروائی کر سکتے تھے۔

گزشتہ روز حکومت کو نئے انتخابات کے حوالے سے مجبور کرنے کے لیے عمران خان نے متعدد بار اپنے کارکنوں اور حامیوں کو مارچ کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچنے کی کال دی تھی لیکن پھر گزشتہ ہفتے جمعرات کو حیران اقدام اٹھاتے ہوئے اچانک مارچ کی کال واپس لے لی تھی۔

پیر کے روز نجی ٹی وی 92 نیوز کے میزبان معید پیرزادہ کو انٹرویو میں پی ٹی آئی چیئرمین نے مارچ ختم کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ کسی بھی افراتفری اور تشدد کا حتمی فائدہ وزیر اعظم شہباز شریف حکومت کو ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کے خلاف نفرت پہلے سے ہی شدت اختیار کر چکی تھی اور مجھے ڈی چوک میں دیکھ کر میرے کارکنوں کے جذبات مزید بھڑک اٹھے ہوں گے، مجھے 100 فیصد یقین تھا کہ گولیاں چلیں گی، ہماری طرف کے لوگ بھی تیار تھے کیونکہ ان میں سے کچھ کے پاس پستول تھے، اس سے پولیس اور فوج کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوتا اور ملک میں تقسیم پیدا ہوتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے سو فیصد یقین تھا کہ اس صورت حال میں ملک انارکی کی طرف جا ئے گا۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ صورتحال سے انہیں یہ تاثر ملا جیسے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور وزیر اعظم شہباز شریف نے پاک فوج سے کہا ہے کہ وہ انہیں صورتحال کو سنبھالنے دیں تاکہ حکومت مظاہرین کو سبق سکھا سکے۔

عمران نے کہا کہ ان کی پارٹی منگل کو سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی اور پوچھے گی کہ ملک میں پرامن احتجاج کرنا جائز ہے یا نہیں، اگر اس بار سپریم کورٹ نے ہمارے بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کیا تو یہ جمہوریت نہیں ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اب یہ سپریم کورٹ میں ٹرائل ہو گا۔

سپریم کورٹ نے احتجاج کے حوالے سے تحفظ نہ دیا تو دوسری حکمت عملی بنائیں گے، عمران خان
اس سے قبل پشاور میں وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ اس ملک کو بچانے کے لیے وکلا برادری کا اہم کردار ہے، آپ نے اسے جہاد سمجھنا ہے کیونکہ یہ اس قوم کی حقیقی آزادی کی جنگ ہے، بیرونی سازش کی وجہ سے جو وقت اس ملک پر آگیا ہے، اگر ہم نے اس کا سامنا نہ کیا تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ماضی میں دیکھا کہ جیسے ہی فوج، جمہوری حکومت کو ہٹا کر اقتدار سنبھالتی تھی تو لوگ مٹھائیاں بانٹتے تھے، جشن مناتے تھے کیونکہ جمہوری حکومتوں کے لوگ جمہوریت کے لیے درکار اخلاقیات کھو بیٹھتے تھے، پیسے بنانے شروع ہو جاتے تھے، پاکستان میں ساری حکومتیں کرپشن پر گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت کو ہٹایا گیا تو کرپشن پر نہیں ہٹایا گیا، ہماری حکومت میں پچھلے دو سال میں ہماری جس طرح کی معاشی کارکردگی رہی، اس طرح کے دو سال ہمارے ملک میں بہت کم رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پشاور میں وکلا کنونشن سے خطاب کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ کورونا جیسی وبا صدی میں ایک بار آتی ہے لیکن اس دوران بھی ہماری معیشت بہتر رہی، پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل تھا جو اس وبا سے سب سے بہتر طریقے سے نمٹا اور اس بحران میں بھی سب سے زیادہ روزگار پاکستان میں تھا تو اس وقت جاکر سازش کے تحت حکومت گرائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ ملک میں پہلی مرتبہ ہوا کہ جب ایک حکومت کو ہٹایا گیا تو لوگ مٹھائیاں بانٹنے کے بجائے سڑکوں پر نکل آئے، پاکستان کے عوام کبھی اس طرح سڑکوں پر نہیں نکلے اور جن کھلاڑیوں نے مل کر سازش کی وہ سب بھی دنگ رہ گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کی تاریخ میں آدھا وقت فوجی آمروں کے پاس اقتدار رہا ہے اور بقیہ وقت ان دو خاندان کے پاس رہا، 62 سال میں سے ہمارے صرف ساڑھے تین سال تھے، اس عرصے میں سازش کرنے والوں کو مسئلہ یہ بنا کہ میں نے ان سے کہا تھا کہ ہم دوستی سب سے کریں گے، ہم امن میں آپ کے ساتھ ہمیشہ ہوں گے لیکن جنگ میں کبھی آپ کا ساتھ نہیں دیں گے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ امریکا نے 9/11 کے واقعے کے بعد پرویز مشرف کو دھمکی دی کہ اگر آپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا ساتھ نہ دیا تو ہم آپ کو پتھروں کے دور میں پہنچا دیں گے، لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت ملک کے سربراہ میں اتنی جرأت نہ تھی کہ وہ امریکا سے کہہ سکتا کہ میں کیوں آپ کی جنگ میں شامل ہوں، میری ذمے داری تو میری قوم ہے، اس کے برعکس میں نے کہا کہ ہم کسی سے بُرے تعلقات نہیں چاہتے لیکن ہم کسی کی غلامی بھی نہیں چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے 80 ہزار لوگ مرے، 100 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا، قبائلی علاقہ تباہ ہوگیا، ہماری روپے کی قدر آدھی ہو گئی، سرمایہ کار یہاں نہیں آتے تھے لیکن کسی نے ہمارا شکریہ ادا نہ کیا کیونکہ اوپر غلام بیٹھے ہوئے تھے اور پیروں میں گرے ہوئے تھے، کسی نے احتجاج نہیں کیا، میں نے دھرنے دیے اور نیٹو کی سپلائی بلاک کی لیکن ان دو پیسے کے غلاموں زرداری اور نواز شریف کے منہ سے ایک مرتبہ بھی اس کے خلاف بات نہیں نکلی، اسی لیے ان کو دوبارہ لے کر آئے ہیں کیونکہ انہوں نے ان کی ہر بات ماننی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سازش کر کے اپنے لوگ اوپر لا کر بٹھا دیے ہیں لیکن عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں، یہ لوگ الیکشن کراتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں، عوام میں جاتے ہیں تو چور اور غدار کے نعرے لگائے جاتے ہیں، اگر مدینہ میں نعرے لگے تو ہمارا کیا قصور تھا، اس سے بھی زیادہ کیا لعنت ہو گی کہ لوگوں نے آپ پر مدینہ میں بھی نعرے لگا دیے ہیں اور ایف آئی آر ہم پر کٹوا دی۔

عمران خان نے کہا کہ شریف خاندان سے زیادہ غلیظ اور گھٹیا لوگوں سے میں کبھی زندگی میں نہیں ملا اور سپریم کورٹ نے ان کا سسیلین مافیا ٹھیک نام رکھا ہے کیونکہ یہ مافیا ہے، یہ لوگوں کو خریدتا ہے یا مافیا کی طرح لوگوں کو ختم کر دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں آزاد عدلیہ کی تحریک میں بھرپور شرکت کی، مجھے آٹھ دن جیل میں بھی ڈالا گیا، میں آپ کو یقین سے کہتا ہوں کہ جو بربریت اور ظلم انہوں نے مشرف کی آمریت میں آزاد عدلیہ کی تحریک میں کیا، میں نے ایسا ظلم نہیں دیکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ چور اوپر بٹھائے جانے کے بعد اب قانون کی دھجیاں اڑیں گی، انہوں نے آتے ساتھ ہی ایف آئی اے کے افسران کو ہٹا دیا، ایف آئی اے کو ان کے اوپر کیسز نہیں کرنے دیے گئے، ان کو بچایا گیا اور پھر ان کو ہمارے اوپر مسلط کیا گیا، یہ لوگ اگر اس ملک کے اوپر بیٹھ گئے تو اصل تباہی ہے کیونکہ قانون کی بالادستی ختم ہو جائے گی۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میں وکلا اور عدلیہ کو کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو تاریخ معاف نہیں کرے گی کیونکہ قانون کی بالادستی یقینی بنانا آپ کا کام ہے، آپ آج کھڑے نہ ہوئے تو آپ کے بچے آپ کو معاف نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے سپریم کورٹ کو اسٹینڈ لینا چاہیے اور مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے ان کے کیسز بلا لیے ہیں، شریفوں کے کیسز کی سپریم کورٹ خود نگرانی کرے اور اگر ہم نے یہ نہ کیا تو پھر پاکستان کی جیلیں کھول دیں، غریب لوگوں کا کیا قصور ہے، وہ چھوٹی چھوٹی چوریاں کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ سے رولنگ لے رہے ہیں کہ پرامن احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے یا نہیں، یہ پختونخوا اور گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کو کیسے روک سکتے ہیں اور انہوں نے ہمیں کس قانون کی بنیاد پر روکا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میں ڈی چوک میں اس لیے نہیں رکا کیونکہ ان کی شیلنگ اور بربریت کی وجہ سے لوگوں میں غصہ تھا لہٰذا مجھے خوف تھا کہ یہ معاملہ اب انتشار کی طرف جائے گا، وہاں لوگ مر جاتے جس سے پولیس کے خلاف مزید نفرت بڑھ جاتی تو اس لیے میں رک گیا کیونکہ آگے بڑھنے کی صورت میں میرے ملک میں تباہی مچے گی۔

انہوں نے کہا کہ میں سپریم کورٹ سے کہہ رہا ہوں کہ ہمیں رولنگ دیں کہ ہمیں کس بنیاد پر روکا گیا اور ہمیں بتائے کہ جب ہم دوبارہ آئیں گے تو کیا سپریم کورٹ اس طرح کے غیر جمہوری رویے کی اجازت دے گا۔

ان کا تھا کہ اگر سپریم کورٹ ہمیں تحفظ دیتا ہے تو وہ ہماری ایک حکمت عملی ہو گی لیکن اگر وہ ہمیں تحفظ نہیں دیتا تو پھر میری دوسری حکمت عملی ہو گی اور وہ حکمت عملی یہ ہو گی کہ یہ جو بھی رکاوٹیں کھڑی کریں گے ہم منصوبہ بندی کر کے جائیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ یہ میرے لیے جہاد ہے، میں کسی صورت ان چوروں اور اس امپورٹڈ حکومت کو قبول نہیں کروں گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں