امریکی وزیر خارجہ انٹونی جے بلنکن نے تجویز دی ہے کہ ماسکو سے تیل اور ہتھیار خریدنے پر بھارت پر پابندیاں عائد کرنے کے بجائے اسے رضاکارانہ طور پر روس سے تعلق ترک کرنے کی ترغیب دی جائے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق انٹونی جے بلنکن نے واشنگٹن میں اپنی متعدد کانگریس کی سماعتوں میں سے ایک میں کہا کہ ‘جہاں ممکن ہو وہاں یہ بہت بہتر ہے کہ ممالک رضاکارانہ طور پر ان معاملات میں شامل نہ ہوں، یہ وہ چیز ہے جس پر ہماری سفارت کاری کی توجہ مرکوز ہے۔’
ڈیموکریٹک سینیٹرز نے ان سماعتوں میں انٹونی جے بلنکن پر زور دیا کہ وہ یوکرین پر حملے کے باوجود روس کے ساتھ کاروبار جاری رکھنے سے روکنے کے لیے بھارت پر مزید دباؤ ڈالیں۔
سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے سربراہ سینیٹر باب مینینڈیز نے کہا کہ ‘وہ روس سے تیل خریدنے جاتے ہیں، وہ ایس-400 (اینٹی میزائل سسٹم) خریدتے ہیں، وہ اقوام متحدہ میں (روس کے خلاف) ووٹ سے پرہیز کرتے ہیں’۔
انہوں نے ہند-بحرالکاہل کے علاقے میں چین کے اثر و رسوخ پر قابو پانے کے لیے امریکا کے زیر قیادت ہم خیال ممالک کے اتحاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘لیکن وہ کواڈ کے رکن ہیں، لہٰذا عالمی سطح پر بھیجے گئے ہمارے پیغامات کسی حد تک متضاد ہیں، جب ہم کہتے ہیں کہ ہم پریشان اور مایوس ہیں تو اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا’۔
سیکریٹری انٹونی جے بلنکن نے اس ‘تلخ حقیقت’ کو تسلیم کیا لیکن ساتھ ہی قانون سازوں پر زور دیا کہ وہ معاملے کا وسیع منظرنامہ دیکھیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک بہت اہم اسٹریٹجک لمحے میں ہیں کیونکہ مختلف ممالک اپنے کچھ دوسرے تعلقات، ممکنہ طور پر روس کے ساتھ نظرثانی کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک تزویراتی تجویز کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اس کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے ساتھ کام کرنا ہمارے مفاد میں ہے اور یہ دیکھنا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیسے دوسرے اسٹریٹیجک مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔
سینیٹ کی ذیلی کمیٹی میں ایک اور سماعت میں سیکریٹری خارجہ نے قانون سازوں کو بتایا کہ روس کے ساتھ بھارت کے تعلقات کئی دہائیوں پرانے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارت کی قیادت کے ساتھ براہ راست رابطے میں کافی وقت گزارا ہے۔
سینیٹرز نے کہا کہ اگر بھارت، روس سے دفاعی ساز و سامان خریدنا بند نہیں کرتا تو وہ اس پر پابندی لگانے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔
امریکی میڈیا نے ان تبصروں پر رپورٹنگ کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین پر روسی حملے سے قبل امریکی قانون ساز بھارت کو روس سے میزائل شکن نظام کی خریداری کے لیے چھوٹ دینے کے لیے زیادہ کھلے دل کا مظاہرہ کرتے تھے۔
امریکی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ روسی حملے کے بعد سے بھارت نے 2021 کے مقابلے میں روس سے خام تیل کی دگنی سے بھی زائد مقدار درآمد کی ہے۔
میری لینڈ کے ڈیموکریٹ سینیٹر کرس وان ہولن نے پوچھا کہ ‘ہم ان ممالک کے خلاف ثانوی پابندیاں کیوں نہیں لگا رہے جو روسی اشیا کی درآمدات بڑھا رہے ہیں؟ یہ ایسے ممالک ہیں جو روسی تیل کی قیمتوں میں رعایت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں جس سے صرف روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو مدد ملے گی’۔
انٹونی جے بلنکن نے کہا کہ امریکا کے کچھ ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں جو روس کی رعایتی اجناس کی برآمدات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن انفرادی پابندیاں لگانا مناسب نہیں ہے۔