اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہفتے کے روز رات گئے دیر گئے عدالت کے دروازے کھولنے کی وضاحت کی ہے جہاں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کی تقدیر کا فیصلہ ہونا باقی تھا اور یہ افواہیں پھیل رہی تھیں کہ عمران خان ’آخری گیند تک کھیلنے کی‘ کی اپنی کوشش میں آرمی چیف کو ڈی نوٹیفائی کر سکتے ہیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق دریں اثنا ہفتے کی رات اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی تھی جس میں عدالت سے کہا گیا کہ عدالت عمران خان کو جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے سے روکے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک اور درخواست میں عدالت سے آئینی بحران کو ٹالنے اور سپریم کورٹ کے 7 اپریل کے حکم پر عمل درآمد کی استدعا کی گئی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ 9 اپریل 2022 کو رات گئے پٹیشنز کی فائلنگ کو غلط رپورٹ کیا گیا ہے اور سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ کیا طے شدہ عدالتی اوقات کے بعد درخواستیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
اپنے بیان میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 11 نومبر 2019 اور 10 فروری 2021 کو جاری کیے گئے دو سرکلرز کا حوالہ دیا جس میں ’عدالتی وقت کے بعد درخواستوں کو پیش کرنے کا طریقہ‘ بتایا گیا تھا۔
ان سرکلرز کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ نے مطلع کیا کہ کسی شہری کی جان یا آزادی یا کسی اور اہم معاملے کو لاحق خطرے کی صورت میں رجسٹرار آفس درخواست وصول کر سکتا ہے اور عدالتی وقت کے بعد بھی اسے چیف جسٹس تک پہنچا سکتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ایک آئینی عدالت کے طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ انتہائی عجلت اور اہمیت کے حامل مقدمات کو طے شدہ اوقات کے بعد بھی کسی بھی وقت پیش کیا جائے، معزز چیف جسٹس اگر مطمئن ہیں کہ کسی معاملے میں انتہائی عجلت درکار ہے، تو وہ کسی بھی وقت کیس لگانے کا حکم دے سکتے ہیں۔
9 اپریل کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے عدالت سے رجوع کیا اور آئین کے آرٹیکل 187 کے تحت درخواست دائر کرنے کے بارے میں استفسار کیا۔
پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے بیان میں ان درخواستوں کا حوالہ دیا گیا جس میں ایک ’قبل از وقت‘ آئینی پٹیشن بھی شامل ہے جس میں اس استدعا کی گئی کہ اس وقت کے وزیر اعظم کو آرمی چیف کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے روکا جائے۔
اس سلسلے میں کہا گیا کہ اس دوران کچھ اور درخواستیں پیش کی گئیں اور انہیں معزز چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر پہنچا دیا گیا، جو اس بات پر مطمئن تھے کہ نہ تو درخواستیں کارروائی شروع کرنے کی ضمانت دیتی ہیں اور نہ ہی انہیں عدالتی حکم کی منظوری کی ضرورت ہے۔
لہٰذا واضح کیا جاتا ہے کہ مذکورہ بالا سرکلرز کی روشنی میں انتہائی عجلت سے متعلق ایک درخواست عدالت کے چے شدہ اوقات کے بعد کسی بھی وقت پیش کی جا سکتی ہے اور اگر چیف جسٹس مطمئن ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے حالات موجود ہیں تو درخواست کو سماعت کے لیے بھی مقرر کیا جا سکتا ہے۔