’یہ بہترین تبدیلی ہے‘، اسرائیلی صدر کی پاکستانی وفد سے ملاقات کی تصدیق

اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے امریکا میں مقیم پاکستانیوں کے وفد سے ملاقات کی تصدیق کی اور اسے ’حیرت انگیز تجربہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسرائیل اور مسلم دنیا کے درمیان تعلقات میں ’بڑی تبدیلی‘ کی ایک مثال ہے۔

آئزک ہرزوگ نے یہ بات 26 مئی کو سوئٹرزلینڈ میں عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) کے ڈیووس میں جاری اجلاس کے دوران خصوصی خطاب کے دوران کی۔

ابراہم معاہدے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ امریکا کی جانب سے 2020 میں توڑا گیا تھا جو اسرائیل کے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کا سبب بنا۔

انہوں نے ڈبلیو ای ایف کے صدر بورگ برینڈی نے سوال کیا کہ ’کیا ابراہم معاہدے سے آپ کو بہت فائدہ ہورہا ہے، آپ تعاون کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے اسے کس طرح دیکھیں گے؟‘

صدر نے جواب دیا کہ ’میں آپ کو بتاؤں گا، آپ جانتے ہیں کہ ہم اسے زندگی کی ہر سطح پر دیکھ رہے ہیں، ہم صرف دوروں کی بات نہیں کر رہے ہیں، ہم معاشی، سائنسی اور جدت سمیت تمام سطح پر مفادات دیکھ رہے ہیں‘۔

تاہم انہوں نے کہا کہ میں اپنے ذاتی خیالات کے حوالے سے آپ کو مزید آگاہ کروں گا۔

آئزک ہرزوگ کا کہنا تھا کہ ہم نے گزشتہ ہفتے دو وفود سے ملاقات کی جو ’ بڑی تبدیلی‘ کا اظہار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک گروپ مراکش سے تعلق رکھنے والے نوجوان رائے سازوں کا تھا جو فیس بُک پر ایک اسرائیلی گروپ کے ساتھ منسلک ہیں۔

وہ ہمارے ساتھ ایک گھنٹے گفتگو میں مصروف رہے اور رکاوٹوں کو ختم کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھنے سے متعلق ان کی گفتگو ہمارے لیے حیرت انگیز تھی۔

اسرائیلی صدر نے کہا کہ ہم نے اگلے روز بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ایک گروپ سے ملاقات کی جو امریکا میں رہائش پذیر ہیں، ان کے ہمراہ ملک اور خطے کے دیگر افراد بھی موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’اور میرے لیے یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ ایک حیرت انگیز تجربہ تھا، ہمارے پاس اسرائیل میں پاکستانی رہنماؤں کا کوئی گروپ نہیں ہے اور یہ سب ابراہم معاہدے سے ممکن ہوا ہے یعنی یہودی اور مسلمان خطے میں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں‘۔

خیال رہے آئزک ہرزوگ نے ان پاکستانیوں کی تفصیلات نہیں بتائیں جن سے انہوں نے ملاقات کی تھی تاہم اسرائیل کی غیر سرکاری تنظیم ’شراکہ‘ نے امریکی پاکستانیوں کے وفد کی ملاقات کے انتظامات کیے تاکہ ’مشرقِ وسطیٰ میں امن کو فروغ‘ دیا جاسکے۔

پاکستان، اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا لہٰذا اس کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں، پاکستان فلسطینی ریاست کے مطالبات کا سخت حامی رہا ہے۔

ابراہم معاہدے کے بعد پاکستان نے واضح کر دیا تھا کہ وہ اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کر سکتا جب تک ’مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل‘ نہیں مل جاتا۔

دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ منصفانہ اور دیرپا امن کے لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل ہو، جس میں 1967 سے پہلے کی سرحدیں ہوں اور القدس الشریف کو ایک قابل عمل، خود مختار اور دارالحکومت کے طور پر رکھا جائے۔

تاہم دونوں ممالک نے طویل عرصے سے نچلی سطح پر غیر اعلانیہ رابطے برقرار رکھے ہیں اور واحد معلوم بات چیت یکم ستمبر 2005 کو اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید قصوری اور ان کے اسرائیلی ہم منصب سلوان شالوم کے درمیان ہوئی تھی۔

دریں اثنا پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری نے اسرائیلی رہنما کے تبصرے کو ’امپورٹڈ حکومت اور دیگر ساتھی سازشیوں کی طرف سے حکومت کی تبدیلی کی سازش کے تحت امریکا سے کیا گیا ایک اور وعدہ پورا کرنے کے مترادف قرار دیا‘۔

انہوں نے ٹوئٹ میں اسے ’شرمناک تابعداری‘ قرار دیا۔

دریں اثنا پی ٹی آئی کے رہنما عمران اسمٰعیل نے کہا کہ وہ تمام لوگ جنہوں نے پارٹی چیئرمین عمران خان کو ساری زندگی ’یہودی ایجنٹ‘ کہا تھا اب وہ ’سرٹیفائیڈ یہودی ایجنٹ اور غلام‘ ثابت ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس شرمناک غلامی کی وجہ سے قوم کا غیرت نیلام ہو رہا ہے۔

تاہم وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کسی سرکاری یا نیم سرکاری وفد نے اسرائیلی صدر سے ملاقات نہیں کی-

ٹوئٹر پر جاری کردہ ایک پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ اس وفد کے شرکا پاکستانی نژاد امریکی شہری تھے جو اپنی وضاحت کر چکے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کی پالیسی واضح ہے اور وہ ریاست اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتی، ہماری تمام تر ہمدردیاں اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں