کئی سال سے بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی مچھیروں کی وطن واپسی

کراچی: گزشتہ ماہ واہگہ پر پاکستانی حکام کے حوالے کیے جانے کے بعد کراچی پہنچنے والے چھ پاکستانی ماہی گیروں کے اہل خانہ کھارادر میں ایدھی فاؤنڈیشن کے مرکز کے باہر فٹ پاتھ پر رکھی گئی کچھ کرسیوں پر بیٹھے اتوار کو سڑک پر نظریں جمائے ہوئے تھے، ان میں سے کئی کے پاس گلاب کی پنکھڑیوں سے بھرے پلاسٹک کے تھیلے تھے، بہت سے مالا اٹھائے ہوئے تھے۔

واپس آنے والے تمام ماہی گیر علی حسن، علی اکبر، علی نواز، وزیر علی، دیدار علی اور حمزہ علی ٹھٹہ کے علاقے کیٹی بندر سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان سبھی کو دسمبر 2016 میں سر کریک سے گرفتار کیا گیا تھا، کراچی میں ان کے استقبال کے لیے آنے والے اہل خانہ نے بتایا کہ مچھلی پکڑنے والی تقریباً پانچ کشتیاں تھیں جنہیں بھارتی ساحلی محافظ تمام 26 افراد کے ساتھ لے گئے تھے، گزرے سالوں کے دوران ان پکڑے گئے ماہی گیروں میں سے 20 واپس آچکے ہیں جبکہ باقی چھ اتوار کو واپس آئے۔

اس بار وطن واپس آنے والے حمزہ علی کے بھائی شوکت علی نے ڈان کو بتایا کہ وہ بھی 2016 میں گرفتار ہونے والے افراد میں سے ایک تھے، جب مجھے اپنے رہائی کے آرڈر ملے تو مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ میرے بھائی کو رہائی کے آرڈر نہیں ملے، میں اسے بھارت میں پیچھے نہیں چھوڑنا چاہتا تھا لیکن میرے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا تاہم وہ یہ جان کر مطمئن نظر آئے کہ اس بار واپس آنے والوں میں ان کا بھائی بھی شامل ہے۔

انہیں افراد میں معمر محمد رمضان بھی شامل تھے جو اپنے پوتوں علی اکبر اور علی نواز کو لینے آئے تھے، 2016 میں قید میں لیے گئے افراد میں ان کے خاندان کے 9 کمانے والے افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا، دو پوتوں کے سوا باقی تمام افراد واپس آ چکے تھے اور اب وہ ان دونوں پوتوں کی وطن واپسی پر بھی راحت محسوس کررہے ہیں۔

واپس آنے والے ماہی گیروں میں سے ایک دیدار حسین بھی ہیں جو پہلی بار اپنے بیٹے رضوان سے ملیں گے کیونکہ جب انہیں گرفتار کیا گیا تو ان کی بیوی تین ماہ کی حاملہ تھیں۔

دیدار نے ڈان کو بتایا کہ اس دوران میں ایک بیٹے کا باپ بنا اور میں نے اپنے والد کو بھی کھو دیا، انہوں نے مزید بتایا کہ وہ کیٹی بندر واپس نہیں آئیں گے کیونکہ ان کا خاندان اب اپنے والد کے انتقال کے بعد کراچی میں ریڑھی گوٹھ منتقل ہو گیا ہے۔

واپس آنے والے ماہی گیروں میں سب سے کم عمر 19 سالہ وزیر علی ہے، جب اسے پکڑا گیا تو وہ صرف 14 سال کا تھا، ان کے والد شیر علی بھی ان کے استقبال کے لیے کراچی آئے تھے، جب وہ اپنے والدین سے دور تھا تو اس کا چھوٹا بھائی بھی بیمار ہو کر انتقال کر گیا تھا، واپسی پر اس کے والد نے اسے گلے لگاتے ہوئے بھائی کے انتقال کی اطلاع دینے کا بوجھ بھی اٹھایا۔

تمام پاکستانی ماہی گیروں کے پاس سنانے کے لیے بھارتی جیلوں میں بدترین مار کے ساتھ ساتھ چار چار دن تک بھوکے رکھنے جیسی خوفناک کہانیاں تھیں۔

ان کے اہل خانہ کے علاوہ واپس آنے والے ماہی گیروں کا بھی ایدھی فاؤنڈیشن کے احمد ایدھی نے استقبال کیا جو انہیں کراچی لائے اور ہر ایک مرد کو پانچ ہزار روپے نقد کے لفاافے بھی دیے۔

فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے شوکت حسین نے بھی انہیں 20ہزار روپے نقد کے لفافے دیے۔

اس موقع پر پاکستان فشر فوک فورم کے سعید بلوچ بھی موجود تھے، یہ فاؤنڈیشن ماہی گیروں کے خاندانوں کی ان کی غیر موجودگی میں دیکھ بھال کر رہی تھی اور انہیں کھانے کا راشن فراہم کر رہی تھی۔

ان ماہی گیروں کی واپسی کے باوجود اب بھی 116 پاکستانی ماہی گیر بھارتی جیلوں میں بند ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں