اسلام آباد: بجلی کمپنیوں نے کے الیکٹرک صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے 45 پیسےجبکہ دیگر تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے لیے 5 روپے فی یونٹ اضافہ کر کے اپریل میں 44 ارب روپے کے اضافی فنڈز اکٹھا کرنے کی اجازت مانگ لی۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے 31 مارچ اور 4 اپریل کو دو علیحدہ عوامی سماعتیں مقرر کی ہیں جن میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ کیا کے الیکٹرک اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے ایندھن کی لاگت ایڈجسٹمنٹ کے مطالبات جائز ہیں۔
سینٹرل پاور پرچیزنگ کمپنی (سی پی پی اے) نے ڈسکوز کی جانب سے جنوری میں فروخت کردہ بجلی کے لیے فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ میں 117 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا ہے تا کہ بجلی 9 روپے 20 پیسے مہنگی کرکے 39 ارب روپے کے اضافی فنڈز اکٹھے کیے جاسکیں۔
کے الیکٹرک نے 4 ارب روپے اکٹھے کرنے کے لیے فروری کی مد میں 3 روپے 45 پیسے اضافی ایف سی اے کی درخواست کی ہے۔
سی پی پی اے اور الیکٹرک کی جانب سے کیے گئے مطالبات وزیراعظم عمران خان کی جانب سے چار ماہ کے لیے بجلی کی قیمت میں 5 روپے فی یونٹ کمی کے اثرات زائل کردیں گے۔
یہ معمول بن گیا ہے کہ حکومت اور ریگولیٹر کی منظورہ کردہ ایندھن کی تخمینہ لاگت غیر حقیقی ثابت ہوتی ہے جو مالی اور معاشی تجزیے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان ہے۔
حالیہ مہینوں میں ایندھن کی لاگت تخمینہ رقم سے 56 فیصد سے لے کر 117 فیصد تک زیادہ رہی۔
جس کا نتیجہ ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ اور غیر ملکی قرض دہندگان کے مطالبے پر مسلسل بڑھتے ہوئے بنیادی ٹیرف کی مد میں صارفین کے لیے قیمتوں کے حیرت انگیز اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔
ڈسکوز کی جانب سے سی پی پی اے نے دعویٰ کیا کہ صارفین سے جنوری میں 4 روپے 25 پیسے فی یونٹ وصول کیے گئے تھے لیکن اصل لاگت 9 روپے 20 پیسے فی یونٹ رہی اس طرح صارفین پر 5 روپے فی یونٹ کا اضافی بوجھ پڑتا ہے۔
یہ نرخ اگر منظور ہوگئے تو انہیں 50 یونٹ ماہانہ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے سوال تمام صارفین سے آئندہ بلنگ ماہ (اپریل میں) وصول کیا جائے گا۔
اعداد و شمار ظاہر کرتے ہین کہ فروری میں بجلی کی مجموعی پیداوار میں مقامی ایندھن ذرائع سے بنائی گئی بجلی کا حصہ 46 فیصد تھا۔
جس میں پن بجلی کا حصہ 18.22 فیصد، کوئلے سے بننے والی بجلی کا 32 فیصد، ایل این جی سے بنائی گئی بجلی کا 15 فیصد جوہری توانائی سے حاصل کردہ بجلی کا 12.53 فیصد، مقامی گیس سے تیار کردہ بجلی کا 11.4 فیصد اور فرنس آئل سے چلنے والے پلانٹس کا حصہ 6.5 فیصد تھا