ملتان:جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ،جینڈر مین سٹریمنگ اسٹینڈنگ کمیٹی پنجاب اسمبلیی، یونائٹڈ نیشن وومن،یونائٹڈ نیشن پاپولیشن فنڈ اور یونیسف کے اشتراک سے مقامی ہوٹل میں “پائیدار کل کے لئے صنفی مساوات” کے موضوع پر پالیسی ڈائیلاگ کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبوں میں کام کرنیوالی خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ایڈیشنل چیف سیکرٹری ساوتھ پنجاب کیپٹن ر ثاقب ظفر بطور مہمان خصوصی ڈائیلاگ میں شریک ہوئے۔جینڈر مین سٹریم اسٹینڈنگ کمیٹی کی چئیرپرسن عظمیٰ کاردار ایم پی اے نے افتتاحی خطاب کیا۔
سیکرٹری بورڈ آف ریونیو جنوبی پنجاب ظہیر عباس ،سیکرٹری پرائمری ہیلتھ کئیر تنویر اقبال تبسم،ایڈیشنل سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر امجد شعیب ،یو این وومن پاکستان کی نمائندہ شرمیلا رسول نے پالیسی ڈائیلاگ میں شرکت کی۔یونیسف اور یو این ایف پی اے کے نمائندے ویڈیولنک کے ذریعے ڈائیلاگ میں شریک ہوئے۔
ایڈیشنل چیف سیکرٹری ساوتھ پنجاب کیپٹن ر ثاقب ظفر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے خواتین کے کردار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو حقوق دلانے کے لئے وسیع پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستان میں صنفی مساوات کے قیام کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کرکام کرنا ہوگا۔کیپٹن ر ثاقب ظفر نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں زراعت کے شعبے سے وابستہ خواتین انتہائی محنت کش ہیں اور بنیادی حقوق کا حصول دیہی علاقے کی ان خواتین کا حق ہے۔انہوں نے یقین دلایا کہ خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنیوالے اداروں کو جنوبی پنجاب میں مکمل سپورٹ فراہم کی جائے گی۔کیپٹن ر ثاقب ظفر نے بتایا کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے تمام محکموں میں خواتین افسران اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہیں۔جینڈر مین سٹریم اسٹینڈنگ کمیٹی کی چئیرپرسن عظمیٰ کاردار ایم پی اے نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے لئے پنجاب اسمبلی نے درجنوں قوانین پاس کئے ہیں لیکن ان قوانین پر عملدرآمد کے لئے پالیسی کا ہونا ضروی ہے۔انہوں نے کہا کہ تعلیم،صحت، پینے کا صاف پانی، خوراک ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔انہوں نے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ جنوبی پنجاب کی خواتین کو پالیسی سازی میں شریک کیا جائے۔ عظمیٰ کاردار
نے بتایا کہ صنفی مساوات کے حوالے سے بنگلہ دیش پاکستان سے آگے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پالیسی ڈائیلاگ کے نتیجے میں تیار کی جانیوالی سفارشات حکومت کو ارسال کی جائیں گی۔ایڈیشنل سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر جنوبی پنجاب امجد شعیب خان ترین نے اپنے خطاب میں صحت کے شعبے کو درپیش اہم مسلے کی نشاندہی کی اور بتایا کہ میڈیکل کالجز میں اوپن میرٹ اور ٹیلنٹ کی وجہ سے 70 فیصد سیٹوں پر خواتین داخلہ حاصل کر لیتی ہیں لیکن ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد80 فیصد خواتین ڈاکٹرز عملی طور پر صحت کے شعبہ میں کام نہیں کرتیں۔انہوں نے بتایا صرف20 فیصد خواتین ڈاکٹر عملی طور ہیلتھ کے فیلڈ میں کام کرتی ہیں،اس طرح حکومت کے وسائل ضائع چلے جاتے ہیں۔امجد شعیب ترین نے نشاندہی کی کہ اس طرح صحت کے شعبے میں مستقبل میں ڈاکٹرز اور آبادی کے تناسب میں گیپ بڑھ سکتا ہے۔امجد شعیب ترین کا کہنا تھا کہ پالیسی ڈائیلاگ میں میڈیکل کالجز میں طلباء اور طالبات کے داخلہ کے حوالے سے ریفارمز بارے سفارشات تیار کی جائیں۔
Load/Hide Comments