وہ سائنسدان جس نے جانیں بچانے کے لیے ایچ آئی وی وائرس اپنے بیگ میں چھپا کر سمگل کیا

(بی بی سی اردو رپورٹ)سنہ 1985 میں سرد جنگ کے عروج پر دنیا کو ایک نئے اور پراسرار وائرس کی وجہ سے انفیکشن اور اموات کی لہر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جبکہ اس سے قبل نوجوان ہم جنس پرست افراد کے غیر معمولی انفیکشن اور نایاب کینسر سے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے بعد 1981 میں ایکوائرڈ امیونو ڈیفینسی سنڈروم یعنی ایڈز کو ایک نئی بیماری کے طور پر تسلیم کیا جا چکا تھا۔

اس بیماری سے متعلق یہ بھی علم ہو چکا تھا کہ یہ ایک ہی سرنج کو استعمال کرتے ہوئے ٹیکے کے ذریعے منشیات استعمال کرنے والوں کو بھی متاثر کرتی تھی جبکہ چند افراد، متاثرہ شخص کے انتقال خون کے ذریعے بھی اس سے متاثر ہوئے تھے۔

بی بی سی نے اس وقت اس بیماری سے متعلق رپورٹ کیا تھا کہ ’ایسی حالت جو متاثرین کو انفیکشن اور بیماریوں کی ایک وسیع رینج سے دوچار کرتی ہے۔ ایڈز کا مرض متاثرہ افراد کے قدرتی مدافعتی اور مذاحمتی نظام کو ختم کر دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں اکثر مہلک ثابت ہوتا ہے۔‘

اس مرض کے چند برس بعد ہیومن امینو ڈیفیشنسی وائرس یعنی ایچ آئی وی کو اس کی وجہ قرار دیا گیا تھا۔

دنیا بھر میں لوگ اس بیماری سے خوفزدہ تھے اور بہت سے ممالک میں اس سے آگاہی سے متعلق مہمات شروع کی گئی تھیں لیکن بلغاریہ میں ایسی کوئی آگاہی مہم شروع نہیں کی گئی تھی جو اس وقت ایک سخت گیر کمیونسٹ حکومت کے زیر انتظام تھا۔

بلغاریہ کے حکومتی حکام نے اس بیماری کے خطرے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس بیماری کو انھوں نے ’ہم جنس پرستوں کی بیماری‘ اور زوال پذیر مغرب کے لیے مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس حقیقت کو ماننے سے انکار کر دیا کہ بلغاریہ کے ہسپتالوں میں غیر ملکی طلبا اور ملاح مر رہے ہیں۔

ایسے میں ملک میں وائرل بیماریوں کی ماہر ڈاکٹر رادکا ارگیرووا، جو اس وقت بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ادارے میں کام کرتی تھیں، نے ماسکو کے معتبر تعلیمی ادارے ایوانوسکی انسٹیٹیوٹ سے 1970 کی دہائی کے اوائل میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور انھیں اپنے کام سے بہت لگاؤ تھا۔

ڈاکٹر ارگیرووا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں بلغاریہ کی اکیڈمی آف سائنسز کی ایک لیبارٹری میں کام کر رہی تھی اور اس ادارے میں وائرلوجی کے لیے ایک بہت ہی دلچسپ لیبارٹری تھی۔‘

وہ اور ان کے ساتھی جن انسانی وائرسوں کا مطالعہ کر رہے تھے ان میں سے ایک ایچ آئی وی تھا۔

انھوں نے 1970 کی دہائی کے اواخر سے تحقیق کا اپنا راستہ مرتب کر رکھا تھا اور اس ضمن میں وہ بیرون ممالک کے سائنسی لٹریچر سے آگاہی حاصل کر رہے تھے۔

اگرچہ اس وائرس کے بارے میں طبی طور پر علم تھا مگر اس کی وجہ سے ہونے والی مہلک بیماری ایک معمہ بنی ہوئی تھی۔

اس پر سونے پر سہاگہ یہ تھا کہ بلغارین حکام اس بارے میں تحقیق کرنے اور جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے مگر ڈاکٹر رادکا ارگیرووا کو اس بارے میں دلچسپی تھی۔

بلغاریہ سے باہر جانا یا اسے چھوڑنا ان کے لیے آسان نہیں تھا لیکن جون 1985 میں ارگیرووا ایک سائنسی کانفرنس میں شرکت کرنے اور ایک تحقیق پیش کرنے کے لیے ہیمبرگ، اس وقت کے مغربی جرمنی گئی تھیں۔

یہ کانفرنس لیوکیمیا اور اس کے نئے وائرس سے ممکنہ تعلق و اثرات سے متعلق تھی۔ یہ ایک شاندار طبی بیٹھک تھی جس میں دنیا بھر سے ماہر وائرولوجسٹ نے شرکت کی، جن میں مشہور امریکی محقق ڈاکٹر رابرٹ گیلو بھی شامل تھے، جو بعد کے برسوں میں ایچ آئی وی کی جانچ کے لیے خون کے ٹیسٹ کو متعارف کروانے کے لیے مشہور ہوئے اور انھوں نے ایچ آئی وی کی تحقیق میں اہم کردار ادا کیا۔

مگر اس وقت ان کو زیادہ نہیں جانا جاتا تھا۔

ڈاکٹر گیلو نے اسی برس بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ اتنی تیزی سے پھیلے گا کیونکہ اس قسم کے وائرس کی منتقلی مشکل ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ دنیا کے مختلف خطوں میں پھیل رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں کبھی بھی اس وائرس سے اتنی اموات کا اندازہ نہیں تھا۔ اس مرض سے شدید بیمار ہونے والے افراد کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔‘

ایک دن ان میں اور ڈاکٹر ارگیرووا میں اس معاملے پر بات چیت ہوئی۔

ڈاکٹر ارگیرووا بتاتی ہیں کہ ’اس وقت میں تمباکو نوشی کر رہی تھی کہ وہ میرے پاس آئے اور انھوں نے ایک سگریٹ طلب کیا۔ جب انھیں علم ہوا کہ میں کہاں سے آئی ہوں تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ بلغاریہ میں ایڈز کی کیا صورتحال ہے؟‘

’میں نے جواب دیا کہ میں آپ کو نہیں بتا سکتی کیونکہ ہمارے ہاں اب تک اس کی کوئی تشخیص ہی نہیں ہوئی۔ لہذا میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ ہمیں ٹیسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔‘

’ڈاکٹر گیلو نے کہا کہ تو برائے مہربانی اس کی جانچ کریں تو میں نے کہا کہ مگر میرے پاس تو وائرس ہی نہیں۔‘

ایسے میں ڈاکٹر گیلو نے ایک حل نکالا، انھوں نے اپنے ایک جرمن ساتھی سے کہا کہ وہ لیبارٹری میں ایچ آئی وی کا ایک وائرس تیار کریں اور اسے ایک جدید موبائل فون کے سائز کے شیشے کی ٹیوب میں بند کر کے پیکٹ بنائیں۔

چند دن بعد انھوں نے وہ پیکٹ ڈاکٹر ارگیرووا کو دیا کہ وہ اسے اپنے بیگ میں رکھ کر اپنے ملک سمگل کر لیں۔

ڈاکٹر ارگیرووا نے اس بارے میں بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ سرخ رنگ کا تھا اور آپ وائرس یا خلیات کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ یہ ریڈ وائن کی طرح تھا اور اس کی دو شیشیاں تھیں: ایک متاثرہ خلیات کے ساتھ اور دوسری غیر متاثرہ خلیات کے ساتھ۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے وہ دو چھوٹی شیشیاں لیں، انھیں اپنے بیگ میں رکھا اور فرینکفرٹ سے پرواز لے کر دارالحکومت صوفیہ آ گئی۔‘

ان کی ایک دوست سے ہوائی اڈے پر ملاقات ہوئی اور وہ دونوں مل کر بلغاریہ کی اکیڈمی آف سائنسز میں لیبارٹری میں واپس آئے تاکہ وائرس کو 37 ڈگری درجہ حرارت پر محفوظ رکھا جا سکے۔

’مگر مجھے اس بارے میں کچھ یقین نہیں تھا کہ اس مشکل سفر اور سخت پابندیوں کے دوران ایچ آئی وی وائرس محفوظ رہ سکا ہو گا یا نہیں۔‘

ڈاکٹر ارگیرووا کہتی ہیں کہ ’خلیات اور وائرس کو تھوڑا سا نقصان ہوتا ہے جب وہ 37 ڈگری درجہ حرارت پر نہیں ہوتے اور یہ سفر ان کے لیے ایک جھٹکا تھا، اس لیے انھیں انکیوبیٹر میں رکھنا پڑا مگر پیر کو میں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی کہ (ایچ آئی وی سے متاثرہ) خلیے ٹھیک نظر آ رہے تھے اور میں نے اس بارے میں مواد اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔‘

جب ایچ آئی وی کے خلیے ان کی لیبارٹری میں نشوونما پانے لگے تو اس دوران ارگیرووا کے لیے چیزیں مزید خراب ہونا شروع ہو گئیں۔

ان کے بارے میں یہ خبر پھیل گئی کہ وہ یہ مہلک وائرس ملک میں لے کر آئی ہیں اور حتیٰ کہ ان کے ساتھی سائنسدان بھی ان سے خوفزدہ ہو گئے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس بارے میں بہت اخبارات میں شور مچا اور بہت سے افراد اس بارے میں بالکل خوش نہیں تھے کہ ہماری لیبارٹری میں یہ وائرس ہے۔ کچھ اس سے خوفزدہ تھے اور دیگر چند شاید حسد کا شکار تھے۔‘

مگر اس سے بھی کچھ زیادہ برا ہوا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں