وزیراعظم نے ایم کیو ایم پاکستان کے احتجاج کے دوران پولیس تشدد کا نوٹس لے لیا

وزیراعظم عمران خان نے سندھ پولیس کی جانب سے ایم کیو ایم کے مقامی حکومتوں کے قانون کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد کا استعمال کرنے کے واقعے کا نوٹس لے لیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں نے سندھ پولیس کی جانب سے ایم کیو ایم کے مقامی حکومتوں کے قانون کے خلاف پرامن احتجاجی مظاہرے کے دوران پولیس کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کا نوٹس لیا ہے۔

https://twitter.com/ImranKhanPTI/status/1486612350614401025?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1486612350614401025%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.dawnnews.tv%2Fnews%2F1176381

وزیراعظم عمران خان کا اپنے ٹوئٹ میں مزید کہنا تھاکہ میں نے مظاہرین کے تشدد کے واقعے کی وزارت داخلہ، چیف سیکریٹری اور آئی جی سندھ پولیس سے مکمل رپورٹ طلب کرلی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ان واقعات کی رپورٹس ملنے کے بعد پُرامن مظاہرین پر تشدد میں ملوث ذمے داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا وفاقی وزیر امین الحق کو فون

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایم کیو ایم کے رہنما اور وفاقی وزیر امین الحق کو ٹیلفون کر کے گزشتہ روز وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے پیش آنے والے واقعے پر گہرے افسوس کا اظہار کیا۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ اس قسم کے واقعات کسی صورت نہیں ہونے چاہئیں، سیاسی اختلافات کا حل بات چیت اور سیاسی طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔

بات چیت کے دوران وزیراعلیٰ سندھ اور امین الحق میں اتفاق ہوا کہ اس واقعے کو لسانیت کا رنگ نہیں دیا جائے گا، دونوں رہنماؤں کی جانب سے لسانیت کے حوالے سے بیانات کی مذمت بھی کی گئی۔

علاوہ ازیں واقعہ میں اگر کوئی جاں بحق ہوا ہے تو پوسٹ مارٹم کرانے پر بھی مشاورتکی گئی، وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم کرنے سے موت کا جو بھی سبب ہوگا وہ سامنے آجائے گا۔

وفاقی وزیر امین الحق نے ٹنڈوالہیار واقعے پر اٹھائے گئے حکومتی اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا، دونوں رہنماؤں نے آئندہ اس قسم کے صورتحال پیدا نہ کرنے پر اتفاق کیا۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ میں واقعے کی انکوائری کرواؤں گا اور جو بھی ملوث پایا گیا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

انہوں نے رہنما ایم کیو ایم پاکستان کو نئے بلدیاتی قانون پر بات چیت کی پیشکش کی جس پر امین الحق کا کہنا تھا کہ اس بارے میں وہ پارٹی سے مشاورت کرکے کوئی جواب دیں گے۔

علاوہ ازیں وزیراعلیٰ نے گزشتہ روز کے واقعے میں زخمی ہونے والے متحدہ کے رکن صوبائی اسمبلی صداقت حسین کو بھی فون کر کے ان کی خیریت معلوم کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

سیکریٹری داخلہ کو انکوائری کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت

دوسری جانب وزیراعلیٰ نے انسپکٹر جنرل( آئی جی) سندھ پولیس اور کمشنر کراچی کے ساتھ اجلاس کیا جس میں گزشتہ روز پیش آئے واقعے پر تفیصلی بات چیت کی۔

ترجمان وزیراعلیٰ کے جاری بیان کے مطابق مراد علی شاہ نے واقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنی سربراہی میں کمیٹی قائم کریں، انکوائری کمیٹی میں جس کے خلاف بھی زیادتی کے ثبوت ملے تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ شہر کا امن حکومت کی ذمہ داری ہے۔

ایم کیو ایم کے احتجاج کے دوران تشدد

واضح رہے کہ گزشتہ روز متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے حکومت سندھ کے بلدیاتی قانون کے خلاف نکالی گئی ریلی پر وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے پولیس نے شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا تھا، لاٹھی چارج کے دوران ایک کارکن جاں بحق جبکہ خواتین سمیت متعدد مظاہرین زخمی ہوگئے تھے، اور رکن صوبائی اسمبلی سمیت متعدد کارکنوں کو گرفتار کرلیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے خلاف ایم کیو ایم پاکستان آج یوم سیاہ منانے کا اعلان بھی کیا تھا۔

گزشتہ روز ایم کیو ایم نے شاہراہ فیصل سے اپنے احتجاج کا آٖغاز کیا اور مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ ہاوس کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا تھا، مظاہرے میں پارٹی رہنماں، اراکین اسمبلی، خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

ایک سینئر پولیس اہکار نے بتایا کہ پولیس نے ایم کیو ایم قیادت سے مذاکرات کیے تھے اور ان کو ریڈ زون سے ہٹ کر کراچی پریس کلب کے سامنے جانے کا کہا تھا۔

اہلکار نے دعویٰ کیا کہ ایم کیو ایم رہنماؤں نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا، جس کے بعد مجبور ہو کر پولیس نے مظاہرین کے خلاف ایکشن لیا اور لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔

افسر کا مزید بتانا تھا کہ کئی لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا مگر صحیح تعداد معلوم نہیں ہے کیونکہ زیر حراست لوگوں کو مختلف تھانوں میں منتقل کیا گیا تھا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے ایم پی اے صداقت حسین اور پولیس اہلکار سمیت 3 لوگوں کو طبی امداد کے لیے جناح ہسپتال لے جایا گیا تھا ۔

ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا تھا کہ ان کا ایک کارکن محمد اسلم ہسپتال میں دوران علاج انتقال کرگیا ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کے اراکین اسمبلی اور خواتین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی اور لاٹھی چارج کیا، جبکہ ایم کیو ایم کے کئی قانون سازوں اور کارکنوں کو نا معلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔

ایم کیو ایم نے سندھ حکومت کو فاشسٹ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ پولیس نے وزیراعلیٰ سندھ اور پی پی کی متعصب قیادت کی ایما پر ہمارے پر امن کارکنوں پر حملہ کیا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما عامر خان نے ویراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے فوری طور پر مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔

علاوہ ازیں اپوزیشن کی کئی جماعتوں نے ایم کیو ایم پاکستان کے خلاف پولیس کی کارروائی کی سخت مذمت کی جبکہ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ایم کیو ایم کے احتجاج کے دوران پولیس کے ایکشن کو بربریت قرار دیاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں