نور مقدم کیس میں 3 ملزمان کو سزا ، ظاہر جعفر کو سزائے موت ، والدین بری

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ) سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا حکم دیتے ہوئے تھراپی ورکس کے ملزمان کو بری کردیا۔ تفصیلات کے مطابق نور مقدم قتل کیس کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں سماعت ہوئی ، مرکزی ملزم ظاہرذاکرجعفرسمیت4 ملزمان کو عدالت میں پیش گیا گیا، اس موقع پر سیکیورٹی کیلئےغیرمعمولی اقدامات کیے گئے۔ ایڈیشنل سیشن جج عطاء ربانی نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا حکم دے دیا۔ سیشن عدالت نے تھراپی ورکس کے ملزمان کو بری کرتے ہوئے شریک ملزمان جمیل اور جان محمدکو 10،10سال قید کی سزا کا حکم دیا. یاد رہے 22 فروری کو سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا ، سماعت میں مدعی وکیل شاہ خاور کے مطابق نورمقدم قتل کیس میں ڈی وی ار، سی ڈی ار، فورینزک اور ڈی این ائے پر مبنی ٹھوس شواہد ہیں، نورمقدم قتل کیس میں تمام شواہد سائنٹیفکلی شامل کیے گئے ہیں۔ شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ملزمان کے خلاف پراسیکیوشن نے کیس ثابت کردیا، عدالت ملزمان کو سخت سےسخت سزا دے۔
نور مقدم قتل کیس، کب کیا ہوا؟
واضح رہے بیس جولائی دوہزاراکیس کو سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نورمقدم کو اسلام آباد میں بےدردی سے قتل کردیا گیا تھا۔
واقعے کی اطلاع ملتےہی پولیس پہنچی اور اسلام آباد کےایف سیون فورمیں معروف بزنس مین ذاکر جعفر کے گھر پر چھاپہ مارا، جہاں سے نور مقدم کی سربریدہ لاش ملی۔ پولیس نے موقع سے ملزم ظاہر جعفرکوآلہ قتل سمیت گرفتار کیا اورتمام شواہد جمع کیے جبکہ گھر کے مالی، ڈرائیور اور چوکیدار کو بھی گرفتارکیا گیا۔
نیٹ چار دن بعد اعانت جرم اور شواہد چھپانے پر ملزم کے والدین ذاکرجعفراوران کی اہلیہ عصمت آدم کو بھی گرفتار کیا گیا تاہم ملزم کی والدہ کی ضمانت ہوگئی جبکہ والد اور دیگر ملوث ملزمان اڈیالہ جیل میں رہے۔
واقعےکی سی سی ٹی وی وڈیوز بھی سامنے آئیں ، جسمیں نور مقدم کوزخمی حالت میں گھر سے نکلنے کی کوشش اور ظاہر جعفر کو دست درازی کرتے دیکھا گیا، وڈیوز میں ملزم کے ملازمین بھی نظر آئے، جنہوں نے نور مقدم کو بچانے کی کوئی کوشش تک نہیں کی۔
بعد ازاں گیارہ ستمبرکوعدالت میں ضمنی چالان جمع ہوا اور ملزم ظاہر جعفر کے بیان سمیت اٹھارہ گواہان کی فہرست جمع کرائی گئی اور ڈی این اے رپورٹ بھی منسلک کی گئی جس میں مقتولہ کے ریپ کی تصدیق کی گئی۔
چودہ اکتوبر کو تمام ملزمان پر فردِ جُرم عائد کی گئی اور بیس اکتوبر دوہزار اکیس سے کیس کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہوا، جو چار ماہ سے زائد چلا ۔
مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے خود کو ذہنی مریض ثابت کرنے کیلیے پہلی پیشی سے آخری پیشی تک ہر حربہ آزمایا اور عدالت میں ہنگامے بھی کیے۔
ملزم کے وکیل نے طبی معائنے کی درخواست کی ، جسےعدالت نے مسترد کر دیا اور جیل کی میڈیکل ٹیم نے ظاہرجعفر کو جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل فٹ قراردیا۔
انیس گواہوں پرجرح مکمل ہونےکےبعدملزمان کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ تین سو بیالیس کےتحت سوالنامہ جاری کیا گیا ،جس پر ظاہر جعفر اپنے ہی اعتراف کردہ جرم سے مُکر گیا۔
واقعے کو غیرت کے نام پر قتل کا رُخ دینے کی کوشش کی اور جب الزام ثابت نہ ہوا تو مقتولہ پر منشیات پارٹی کا اہتمام کرنے کا الزام لگا دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں