‘سیلنگ کلب، فارمز کی تعمیر کیلئے اراضی صدر اور وزیراعظم نے دی تھی’

راول جھیل پر اپنے سیلنگ کلب اور سملی ڈیم روڈ پر فارم ہاؤسز قائم کرنے دفاع کرتے ہوئے وزارت دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ دونوں منصوبوں کے لیے زمین کی منظوری بالترتیب اس وقت کے صدر اور وزیراعظم پاکستان نے مختص کی تھی۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر ایک انٹرا کورٹ اپیل میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا

چیف جسٹس نے سیلنگ کلب کو مسمار کرنے اور کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو فارم ہاؤسز کو اپنے قبضے میں لینے کی ہدایت کی تھی۔

امکان ہے کہ اپیل پر ہائی کورٹ کا دو رکنی ڈویژن بینچ آئندہ ہفتے سماعت کرے گا۔

اپیل میں عدالت سے پاک بحریہ، اس کے سابق سربراہ اور دیگر تمام عہدیداروں کے خلاف منفی نتائج کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایک رکنی بینچ نے حقائق پر غور نہیں کیا اور سی ڈی اے سے متعلق معاملے میں رٹ کا دائرہ اختیار استعمال کیا۔

اپنے فیصلے میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسے ‘قسمت کی ستم ظریفی’ قرار دیا تھا کہ ‘چیف آف نیول اسٹاف اور مسلح افواج کی شاخوں میں سے ایک یعنی پاک بحریہ نافذ شدہ قوانین اور ملک کے سب سے بالا قانون، آئین کے تحت مقرر کردہ مینڈیٹ کی خلاف ورزیوں میں ملوث تھی’۔

تاہم وزارت دفاع کے توسط سے دائر کی گئی اپنی اپیل میں بحریہ نے مؤقف اختیار کیا کہ ‘مسلح افواج کے حوالے سے آئینی دفعات کی تشریح کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت مسلح افواج کو بیرونی جارحیت کے خلاف پاکستان کا دفاع کرنا ہے لیکن انہیں یہ ہدایت نہیں کی گئی کہ اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ضرورت پڑنے پر اپنی جان دیں یا دشمن کی جان لے لیں۔’

خلاصے کے مطابق بحریہ کی دلیل یہ ہے کہ وہ آئینی دفعات جن کے تحت مسلح افواج کو ملک کا دفاع اور طلب کیے جانے پر سول طاقت کی مدد کرنی ہوتی ہےوہ عام دفعات ہیں اور ان کی وسیع پیمانے پر تشریح کی جانی چاہیے۔’

اپیل میں وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ 1992 میں پاکستان کے صدر تھے جنہوں نے نیول ہیڈ کوارٹرز میں 7 نئے ڈائریکٹوریٹ بنانے کی منظوری دی تھی جن میں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ویلفیئر اینڈ ری ہیبلیٹیشن بھی شامل تھا، یہ ڈائریکٹوریٹ ہی تھا جس نے بحریہ کے افسران کے لیے سملی ڈیم روڈ پر رہائشی اسکیم کا آغاز عوامی پیسے سے نہیں بلکہ ان کے فلاحی فنڈز سے کیا تھا۔

سیلنگ کلب کے حوالے سے اپیل میں کہا گیا کہ ‘واٹر اسپورٹس میں نوجوان کھلاڑیوں کی صلاحیت کو بڑھانے کے علاوہ روئنگ، سیلنگ، کشتی رانی اور دیگر واٹر اسپورٹس میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے گزشتہ 25 برسوں سے راول جھیل کے مرکزی علاقے کی ملکیت نیوی کے پاس ہے’۔

بحریہ کے موقف کے مطابق، ‘واٹر اسپورٹس سینٹر نہ تو روایتی معنوں میں کلب ہے اور نہ ہی یہ ایک تجارتی ادارہ ہے’، ساتھ ہی بتایا کہ انہوں نے عمارت کے ضوابط کی خلاف ورزی کے حوالے سے جاری کردہ سی ڈی اے کے نوٹس کا جواب دیا تھا۔

اپیل میں کہا گیا کہ ‘وزیراعظم پاکستان نے 18 اکتوبر 1992 کو راول جھیل سمیت چھ مقامات پر واٹر اسپورٹس سینٹر قائم کرنے کی ہدایت جاری کی تھی اور 2018 میں اس کے قیام کے 25 سال بعد اسے اپ گریڈ کیا گیا تھا’۔

اپیل میں وزارت نے عدالت سے سیلنگ کلب کو گرانے اور نیول فارمز کا کنٹرول سی ڈی اے کو منتقل کرنے کا فیصلہ واپس لینے کی استدعا کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں