قومی احتساب بیورو (نیب) نے ریٹائرڈ فور اسٹار جنرل احسن سلیم حیات اور نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) کے سینئر افسران کے خلاف اسی ادارے میں خدمات سرانجام دینے والے ایک سابق میجر کی جانب سے دائر کی گئی شکایت پر کارروائی شروع کردی ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق میجر اکرم رضا نے 2015 میں لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کئی فوجی افسران کو خام تیل کا غیر قانونی کاروبار چلانے پر ملازمت سے برطرف کیا گیا جس سے قومی خزانے کو یومیہ 2 کروڑ روپے کا نقصان ہوا، وہ اپنے بقایا جات اور فوجی حکام کی جانب سے ان پر عائد جرمانے کی رقم طلب کررہے تھے۔
پٹیشن کے ساتھ منسلک دستاویزات کے مطابق 17 افراد جن میں 2 لیفٹیننٹ کرنل، 3 میجرز، مختلف رینک کے 6 سپاہی اور 4 عام شہری ان لوگوں میں شامل تھے جو تیل کی غبن کے مرتکب پائے گئے تھے اور انہیں فوجی حکام نے 26 جنوری 2005 کو خام تیل کے غیر قانونی کاروبار کے جرم میں برطرف کر دیا تھا۔
میجر رضا نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ان افراد کے گروپ کا حصہ نہیں تھے جنہیں برطرف کیا گیا تھا بلکہ انہوں نے درحقیقت خام تیل کی چوری اور غیر قانونی فروخت کی نشاندہی کی تھی اور انہیں بغیر کسی وجہ کے گرفتار کر کے حراست میں لیا گیا تھا۔
اپنی درخواست میں سابق میجر نے کہا کہ انہوں نے اس اسکینڈل میں ملوث لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی لیکن این ایل سی انتظامیہ ان پر خام تیل مافیا کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی رہی اور انکار کرنے پر انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔
لاہور ہائیکورٹ میں سابق میجر کی نمائندگی وکیل انعام الرحیم نے کی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق آرمی چیف ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی مبینہ بدعنوانی کے خلاف شکایت کے سلسلے میں کارروائی نہ کرنے پر نیب کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے انسداد بدعنوانی کے نگراں ادارے کو ہدایت کی تھی کہ صرف سیاستدانوں کو نشانہ بنائے جانے کا تاثر دور کیا جائے۔
نیب نے گزشتہ ماہ سابق میجر اکرم رضا کو ان کی شکایت کی جانچ پڑتال کے بارے میں آگاہ کیا تھا، نیب کے جاری کردہ ایک خط کے مطابق شکایت کو متعلقہ ڈائریکٹوریٹ کو بھیج دیا گیا ہے۔
اپنی شکایت میں سابق میجر نے کہا کہ وہ کراچی میں این ایل سی کی ٹرانسپورٹ بٹالین میں دسمبر 2001 سے جنوری 2004 تک سیکنڈ ان کمانڈ کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور پھر 27 فروری 2006 تک مختلف ایجنسیوں کے نگران رہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے این ایل سی کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل خالد ظہیر اختر کو خام تیل مافیا کی موجودگی کے علاوہ 100 ہینو بسوں کی خریداری میں بڑے پیمانے پر غبن کے بارے میں بھی آگاہ کیا تھا لیکن انہیں گرفتار کر کے حراست میں لے لیا گیا۔
جنرل خالد ظہیر اختر ان 3 این ایل سی جنرل افسران میں سے ایک تھے جو این ایل سی اسکینڈل میں ملوث پائے گئے تھے۔
شکایت کے مطابق سابق میجر نے بتایا کہ یہ معاملہ کراچی کے اس وقت کے کور کمانڈر جنرل احسن سلیم حیات کے سامنے اٹھایا گیا لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا بلکہ جنرل احسن سلیم حیات نے وائس چیف آف آرمی اسٹاف بننے کے بعد ان کی ملازمت سے برطرفی کی منظوری دیدی اور ان پر 2 لاکھ 93 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کردیا۔
انہوں نے چیئرمین نیب سے درخواست کی کہ وہ جنرل احسن سلیم حیات اور این ایل سی کے دیگر افسران کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔