اپوزیشن کی جانب سے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر جنوبی وزیرستان سے زیر حراست آزاد رکن علی وزیر اور کراچی سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایم این اے جام عبدالکریم بجڑ کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے تاکہ قومی اسمبلی میں دونوں اراکین کی وزیر اعظم کےخلاف تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ میں ان کی شرکت کو یقینی بنایا جاسکے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن پُر امید ہے کہ ووٹنگ کے روز ان کا یہ اقدام دونوں قانون سازوں کے بغیر بھی کامیاب ہوگا۔
مشترکہ اپوزیشن کے اراکین نے 25 مارچ کو اسپیکر قومی اسمبلی کو ایک تحریری درخواست جمع کرائی تھی، جس میں کہا گیا کہ وہ پارٹی سے وابستگی سے قطعہ نظر، نظر بند قانون ساز کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کریں، تاکہ وہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکیں۔
خیال رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے حمایت یافتہ علی وزیر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں 31 دسمبر 2020 سے جیل میں ہیں۔
سپریم کورٹ نے رکن قومی اسمبلی کو گزشتہ سال نومبر میں دی تھی، تاہم انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے گرفتاری کا ایک اور حکم جاری ہونے سے قبل اضافی تصدیق کے لیے ان کی رہائی روک دی گئی۔
علاوہ ازیں گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایم این اے جام کریم کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دی۔
درخواست میں کہا گیا تھاکہ قتل کے کیس میں حفاظتی ضمانت کے باوجود شیخ رشید نے ان کا نام پروینشل نیشنل آئیڈنٹیفکیشن لسٹ میں شال کردیا ہے لیکن عدالت کی ہجانب سے ان کی حفاظتی ضمانت میں 25 مارچ تک کی توسیع کردی گئی ہے۔
نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داور، مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینکل اور دیگر کی جانب سے دستخط کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’ بطور اسپیکر قومی اسمبلی آپ کے عہدے کی غیر جانبداری کا تقاضا ہے کہ آپ پارٹی سے وابستگی سے قطعہ نظر اراکین قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کریں تاکہ پاکستان کے ہر حلقے کے نمائندے اپنے ووٹ کا حق ادا کرسکیں۔
قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق اسپیکر یا کمیٹی کے چیئرمین کو گرفتار قانون سازوں کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا اختیار ہوتا ہے تاکہ ایوان کے اجلاس کے دوران ان کی شرکت کو یقینی بنایا جاسکے۔
ماضی میں بہت سے اسپیکر اس اختیار کا استعمال کرچکے ہیں، اسپیکر اسد قیصر نے اس سے قبل بھی علی وزیر کا پروڈیکشن آرڈر جاری کیا تھا ، علی وزیر عام انتخابات 2018 کے بعد سے جیل میں ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اسپیکر کو علی وزیر کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنا چاہیے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اگر اسپیکر نے ایسا نہ بھی کیا تو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کے پاس درکار ووٹوں کی تعداد مکمل ہے۔
رکن قومی اسمبلی جام کمال کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ یہ ہر شخص کا انفرادی حق ہے کہ عدالت کی جانب سے اسے حفاظتی ضمانت دی جائے اور عدالت ایسا کرچکی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی کو گرفتار کرلیا جائے گا۔
بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ عدالت ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے گی جو اس کے حکم کی خلاف ورزی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
تاہم دونوں اراکین کو اجازت نہ ملنے کے امکان کے باوجود چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اپوزیشن کے اقدام کی کامیابی سے متعلق اعتماد کا اظہار کیا۔
بی اے پی کے چار اراکین، جمہوری وطن پارٹی کے رکن قومی اسمبلی شاہ زین بگٹی اور دو آزاد امیدواروں علی نواز شاہ اور اسلم بھوتانی کی جانب سے اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ سےپیپلز پارٹی کی قیادت پُر اعتماد دکھائی دیتی ہے۔
اسمبلی کے سامنے عدم اعتماد کی قرارداد پیش کرنے کے دوران اپوزیشن اپنے تمام اراکین کی موجودگی کو یقینی بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی اراکین مکمل ہونے کے بعد ہی شہباز شریف نے باضابطہ طور پر اس قرارداد کو پیش کرسکتے تھے ۔
اپوزیشن کے 161 اراکین اس تحریک کی حمایت کر رہے ہیں۔
اس وقت اپوزیشن کے پاس پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں 163 اراکین ہیں اور جب قرارداد پیش کی گئی تو صرف علی وزیر اور جام کریم اسمبلی میں موجود نہیں تھے۔