بھارت میں مذہبی تہوار کے دوران ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں نے پولیس کو ایک قصبے میں کرفیو کے نفاذ اور گجرات اور دو دیگر ریاستوں کے متاثرہ علاقوں میں چار سے زیادہ لوگوں کے اجتماع پر پابندی عائد کرنے پر مجبور کر دیا۔
نجی اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایک روز قبل مغربی ریاست گجرات کے ایک قصبے میں ہندوؤں کے ایک جلوس پر مبینہ طور پر پتھراؤ کے نتیجے میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور 9 پولیس اہلکاروں سمیت 10 افراد زخمی ہو گئے تھے۔
وسطی ریاست مدھیا پردیش میں بھی اسی طرح کی جھڑپوں کے دوران 35 سے زائد افراد زخمی ہوئے جبکہ مشرقی ریاست جھاڑکنڈ کو بھی فرقہ وارانہ تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ واقعہ گجرات کے ضلع آنند کے علاقے کھمبٹ میں پیش آیا، وہاں کے پولیس عہدیدار ایم جے چوہدری نے کہا کہ ہم نے جھڑپوں کے بعد 7 افراد کو حراست میں لے لیا ہے اور مزید کشیدگی کو روکنے کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں بھی حکام نے ہمت نگر قصبے کے کچھ حصوں میں کرفیو نافذ کر دیا۔
2002 میں گجرات تقریباً ایک ماہ تک مہلک، بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد کی لپیٹ میں رہا تھا، انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ان فسادات میں تقریباً 2ہزار افراد مارے گئے تھے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور ہندو قوم پرست بھارتیا جنتا پارٹی میں تیزی سے مقبولیت حاصل کررہے تھے۔
یہ تہوار اتوار کے روز منایا گیا کیونکہ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ اس دن ہندو بھگوان رام کی پیدائش ہوئی تھی۔
گزشتہ ہفتے پولیس نے ایک مذہبی جلوس پر اسی طرح کے حملے کے بعد ریاست راجستھان میں بھی کرفیو نافذ کر دیا تھا۔