کوئٹہ کے بلدیاتی انتخابات میں برتری برقرار رکھتے ہوئے آزاد امیدواروں نے 4 ہزار 456 نشستوں میں سے ایک ہزار 882 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی جبکہ جمیعت علمائےاسلام (ف) اور برسرِ اقتدار عوامی نیشنل پارٹی (بی اے پی) نے بالترتیب469 اور 303 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، سرکاری نتائج کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے 34 میں سے 32 اضلاع کےنتائج جمع کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جبکہ الیکشن کمیشن شیڈول کے مطابق 32 اضلاع کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا اعلان 3 جون تک متوقع ہے۔
انتخابات کے دوران ہنگامہ آرائی اور تشدد کے باوجود ووٹ دینے والوں کا تناسب ماضی کے برعکس خاصہ زیادہ دیکھائی دیا، اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے اسے ’حوصلہ افزا ‘ اور ’جمہوریت کےلیے اچھا‘ دیکھا جارہا ہے۔
اندرونِ بلوچستان سے موصول ہونے والے رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف نوجوان مرد بلکہ خواتین ووٹرز بھی پولنگ کے عمل میں درلچسپی لے رہی تھیں۔
گزشتہ شام تک مرتب کیے گئے 3 ہزار 555 نشستوں کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق آزاد امیدواروں نے ایک ہزار 882 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جے یو آئی (ف) نے 469 نشستیں اپنے نام کیں، بی اے پی 303 نشستوں پر کامیابی سمیٹ سکی، عوامی نیشنل پارٹی مینگل نے 202 نشستوں پر مخالفین کو شکست دی، نیشنل پارٹی 145 سیٹوں پر کامیابی سمیٹ پائی۔
علاوہ ازیں پشتونخو ملی عوامی پارٹی 135 نشستوں پر کامیاب ہوئی، پاکستانی پیپلز پارٹی نے 130 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، پاکستان تحریک انصاف 71 سیٹیں جیت سکی، بی این پی (عوامی) نے 68 سیٹیں جیتیں، گوادر حقوق تحریک نے 52، پاکستانی مسلم لیگ (ن) نے 20، جمہوری وطن پارٹی نے 19 اور جماعتِ اسلامی نے 16 نشستوں پر کامیابی اپنے نام کی۔
چیف سیکریٹری عبدالعزیز عقیلی نے تصدیق کی کہ بلوچستان میں ووٹنگ کا مجموعی ٹرن آؤٹ 50 سے 60 فیصد رہا جو جمہوریت کے لیے بہت حوصلہ افزا اور اچھا ہے۔
ایک سینیئر عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ بہتر ٹرن آؤٹ آگاہی پروگرامز کا نتیجہ ہے، یہ پروگرامز الیکشن سے قبل عورت فاؤنڈیشن اور سول سوسائٹی کے اراکین کے تعاون سے منعقد کیے گئے تھے۔
سیاسی تجزیہ کاروں خیال تھا کہ شہری بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشنز کا رخ کریں گے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ان کے منتخب نمائندے ان گھروں پر ان کے مسائل حل کریں گے۔
سابق ناظم اسلم رند نے ڈان کو بتایا کہ ’ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی شہریوں سے رابطہ نہیں کرتے لہٰذا شہری چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل کو مقامی سطح پر حل کیا جائے‘۔
انتخابات میں بی این پی عوامی جو بی اے پی کی زیر قیادت حکومت کی اتحادی ہے، بلدیاتی 68 سیٹیں حاصل کر سکی جبکہ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کی کارکردگی بھی متاثر کن نہیں رہی، انہوں بالترتیب 71 اور 20 نشستیں حاصل کیں۔
نواب اکبر بگٹی کے دور میں جے ڈبلیو پی صوبے کی حکمران جماعت تھی وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے، رواں سال ہونے والے بلدیاتی انتخاب میں صرف 19 سیٹیں ہی حاصل کر پائی ہے۔
گوادر حقوق تحریک نے ماہی گیروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے حقوق کے لیے اپنے حالیہ احتجاج کا فائدہ اٹھایا اور گوادر، پسنی، اورماڑہ، سوربندر اور پشکان کے ساحلی علاقوں میں خواتین سمیت ووٹرز کو راغب کرنے میں کامیاب ہوئی۔