امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے کہا ہے کہ جب کابل پر طالبان کا قبضہ ہوا تو واشنگٹن میں ’حیرت اور مایوسی‘ پائی جارہی تھی لیکن آہستہ آہستہ وہ صورتحال سمجھ گئے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سقوط کابل پر امریکا کا ردِ عمل اتنا سخت کیوں تھا کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے یہ سب کے لیے حیران کن، یہاں کے انٹیلی جنس اندازوں کے برعکس اور کسی کی توقع سے پہلے تھا۔
اسد مجید خان امریکا میں سب سےطویل عرصے تک فرائض سر انجام دینے والے پاکستانی سفیر ہیں جو جمعرات کو اسلام آباد روانہ ہوجائیں گے اور یورپی یونین، بیلجیئم اور لکسمبرگ کے لیے ملک کے نئے سفیر کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
وہ 7 جنوری 2019 سے 24 مارچ 2022 تک واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے تعینات رہے، اس کے علاوہ انہوں نے سفارتخانے کے ڈپٹی چیف کی حیثیت سے 4 سال فرائض سرانجام دیے اور نیویارکٹ میں 6 سال گزارے جس کے دوران اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مشن کے سفارتکار بھی مقرر رہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ واشنگٹن میں سب سے مشکل معاملہ کونسا تھا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ افغان مسئلہ سب سے مشکل تھا لیکن دونوں فریق کبھی بھی مسائل کے حل سے پیچھے نہیں ہٹے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اور یہ (امریکا پاکستان تعلقات) کبھی بھی آسان نہیں رہے، دونوں میں افغانستان کے حوالے سے ’واضح ہم آہنگی‘ پائی جاتی ہے کیوں کہ امریکا افغانستان کے امن و استحکام میں اتنی ہی دلچسپی رکھتا ہے جتنی ہم رکھتے ہیں‘۔
اسد مجید خان نے پاکستان کی معاونت سے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے دوحہ مذاکرات میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی جس کے نتیجے میں امریکا کے افغانستان سے انخلا کا امن معاہدہ ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا کام اپنا قومی نقطہ نظر واشنگٹن کو بتایا اور یہاں ظاہر کیے گئے تحفظات کو سننا اور یہ واضح کرنا تھا کہ اسلام آباد افغانستان میں ہوئی پیش رفت کو کس طرح دیکھتا ہے‘۔
تاہم سفارتخانے نے طالبان کے دوحہ کے دورے کے انتظامات نہیں کیے بلکہ یہ سب اسلام آباد نے سنبھالا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے انخلا کے خواہشمندوں کو نکالنے میں سہولت فراہم کرنے سے سقوط کابل کے بعد باہمی تعلقات بہتر بنانے میں مدد ملی۔
سبکدوش ہونے والے سفیر کا مزید کہنا تھا کہ ’امن عمل میں اور طالبان کے قبضے کے بعد کے اثرات سے نمٹنے میں پاکستان کے مثبت کردار پر تعریف کی گئی، لوگ سمجھ گئے ہیں کہ افغانستان کو مستحکم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کو اکٹھا ہونا ہوگا، پاکستان اکیلا یہ نہیں کرسکتا‘۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور وزیراعظم کی فون کال سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹیلی فون کالز کو پاکستان امریکا تعلقات کی طرح کسی بھی تعلق کا پیمانہ نہیں ہونا چاہیے