اسحٰق ڈار کی سینیٹ کی نشست خالی قرار دی جائے، قائد ایوان

سینیٹ میں قائد ایوان شہزاد وسیم نے چیئرمین سینیٹ اور چیف الیکشن کمشنر کے نام خط میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اسحٰق ڈار کی نشست خالی قرار دینے کی استدعا کردی۔

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے قائدایوان شہزاد وسیم نے چئیرمین سینیٹ و چیف الیکشن کمشنر کے نام خط میں کہ اہے کہ سپریم کورٹ نے 21ستمبر2021کو اسحٰق ڈار کی نشست کے خلاف اسٹے آرڈر خارج کیا۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن آرڈیننس 2021 کی شق72اے کے تحت 40 روز میں حلف اٹھانا لازم ہے اور دسمبر2021کےسپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سینیٹ کی نشست خالی ہوگئی۔

قائد ایوان نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن اسحٰق ڈار کی نشست خالی قرار دے کر انتخاب کے لیے شیڈول جاری کرے۔

قبل ازیں گزشتہ روز چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اسحٰق ڈار کی ورچوئل حلف کی دارخوست غیر آئینی قرار دے کر مسترد کردی تھی۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا تھا کہ رکنیت کا حلف لینے کے لیے سینیٹر کو خود ایوان میں حاضر ہونا پڑے گا، سینیٹ کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں اور ویڈیو لنک کے ذریعے حلف نہیں لیا جاسکتا۔

اسحٰق ڈار کو لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ہائی کمشنر لندن کے ذریعے حلف لینے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے 2 فروری کو چیئرمین سینیٹ کے نام خط لکھ کرمؤقف اپنایا تھا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 255 (2) کے تحت فراہم کردہ طریقہ کار کے ذریعے سینیٹ کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے لیے تیار ہیں کیونکہ آئین کے مطابق وہ طویل علالت اور جاری طبی علاج کی وجہ سے پاکستان نہیں آسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے 10 جنوری 2022 کو میری سینیٹ نشست پر کامیابی کو معطل کرنے کا نوٹی فکیشن واپس لے لیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ قانونی رکاوٹیں دور ہونے کے بعد بطور منتخب سینیٹر حلف اٹھانے کے لیے تیار ہوں، برطانیہ میں زیر علاج ہونے کے سبب فی الحال ذاتی طور پر آنے سے قاصر ہوں لہٰذا ورچوئل/ویڈیو لنک کے ذریعے حلف لیا جائے۔

پس منظر
خیال رہے کہ سینیٹ انتخابات سے قبل اسحٰق ڈار کی نامزدگی کو لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) میں چیلنج کیا گیا تھا جسے بعد میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔

ان کے انتخاب کے بعد حریف امیدوار پی ٹی آئی کے نوازش علی پیرزادہ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے بار بار سمن جاری کرنے کے باوجود پیش نہ ہونے پر 8 مئی 2018 کو ای سی پی کی جانب سے جاری اسحٰق ڈار کی جیت کا نوٹی فکیشن معطل کر دیا تھا۔

تاہم گزشتہ سال دسمبر میں سپریم کورٹ نے مقدمہ نہ چلانے کی اپیل کو خارج کر دیا، لہٰذا ای سی پی کی جانب سے سابق وزیر خزانہ کے حق میں کسی بھی نوٹی فکیشن کے اجرا کے خلاف عدالت کا 2018 کا حکم امتناع خارج کر دیا گیا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ای سی پی نے 10 جنوری کو اسحٰق ڈار کی بطور سینیٹر جیت کا نوٹی فکیشن بحال کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ اسحٰق ڈار اکتوبر 2017 میں علاج کے لیے اس وقت لندن چلے گئے تھے جب احتساب عدالت ان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بدعنوانی کے ریفرنس کی سماعت کر رہی تھی۔

ان پر 83 کروڑ 17 لاکھ روپے کے اثاثے بنانے کا الزام تھا جو کہ نیب کی جانب سے ان کے معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ ہے، انہیں 21 نومبر 2017 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے مفرور قرار دیا تھا۔

اس سے قبل عدالت نے اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو (اے جی پی آر) والے اکاؤنٹ کے علاوہ ان کے دیگر اثاثوں، جائیدادوں، بینک اکاؤنٹس اور پاکستان اور بیرون ملک سرمایہ کاری کو منجمد کرنے کی توثیق کی تھی۔

انہیں 11 دسمبر 2017 کو ایک کھرب 20 ارب روپے مالیت کے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں بھی مفرور قرار دیا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں